Maktaba Wahhabi

337 - 849
کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ شرم گاہ کے بدلے شرم گاہ بھی۔[1] اس لیے کہ ہر نیکی کی جزا اسی جیسی ہوتی ہے قرآن فرماتا ہے تمہیں وہی جزا دی جائے گی جو تم نے کیا ہو گا۔ (الصافات: ۳۹) حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ تعالیٰ کے ذمے حق ہے وہ غازی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو وہ مکاتب غلام اور قرض دار جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو وہ نکاح کرنے والا جس کا ارادہ بدکاری سے محفوظ رہنے کا ہو۔[2] مقروض کے قرضے کی ادائیگی یہاں قرض سے مراد خانگی ضروریات کے قرضے ہیں تجارتی اور کاروباری قرضے نہیں اور قرض دار سے مراد ایسا مقروض ہے کہ اگر اس کے مال سے سارا قرض ادا کر دیا جائے تو اس کے پاس نقد نصاب سے کم مال رہتا ہو۔ یہ مقروض خواہ برسرروزگار ہو یا بے روزگار اور خواہ وہ فقیر ہو یا غنی اس مدسے اس کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے۔[3] رہے قرض دار تو ان کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ ایک شخص دوسرے کا بوجھ اپنے اوپر لے لے کسی کے قرض کا آپ کا ضامن بن جائے پھر اس کا مال اٹھ جائے یا وہ خود قرض دار بن جائے یا کسی نے برائی پر قرض اٹھایا ہو اور اب توبہ کر لے پس انہیں مال زکوٰۃ دیا جائے گا کہ یہ قرض ادا کر دیں ۔ اس مسئلے کی اصل قبیصہ رضی اللہ عنہ بن مخارق ہلالی کی یہ روایت ہے کہ میں نے دوسرے کا حوالہ اپنی طرف لیا تھا پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ٹھہرو ہمارے پاس مال صدقہ آئے گا تو ہم اس میں سے تمہیں دیں گے، پھر فرمایا: قبیصہ سن! تین قسم کے لوگوں کو ہی سوال حلال ہے ایک تو وہ جو ضمانت اٹھائے پس اس رقم کے پورا ہونے تک اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے پھر سوال نہ کرے۔ دوسرا وہ جس کا مال آفت ناگہانی سے ضائع ہو جائے اس کے لیے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ پیٹ بھرائی ہو جائے، تیسرا وہ شخص جس پر فاقہ گزرے اور اس کی قوم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لیے کھڑے ہو جائیں کہ ہاں بے شک فلاں شخص پر فاقے گزرنے لگے ہیں اسے بھی مانگ لینا جائز ہے۔ تاوقتیکہ اس کا سہارا ہو جائے اور سامان زندگی مہیا ہو جائے، ان کے سوا اوروں کو سوال کرنا حرام ہے اگر وہ
Flag Counter