ہم اللہ کے احکام بجا نہ لا سکیں گے تو عورت اپنے کسی حق سے دست بردار ہو کر یا کچھ دے دلا کر شوہر کو طلاق نہ دینے پر راضی کر لے تو یہ جائز ہے اور اس کی مثلاً جیسے ام المومنین سیّدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا جب بوڑھی ہو گئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نیز اس خیال سے بھی کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں طلاق نہ دے دیں اپنی باری سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی۔[1] خلع کے احکام ﴿فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ﴾ شریعت کی اصطلاح میں اسے خلع کہتے ہیں ، یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلا کر اس سے طلاق حاصل کرنا۔[2] اگر عورت بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع طلب کرتی ہے تو وہ سخت گناہ گار ہے، چنانچہ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے بے سبب طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔[3] ضروری نہیں زر فدیہ اتنا ہی ہو جتنا حق مہر تھا۔ اس سے کم بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ بھی مگر زیادہ لینے کو فقہاء نے مکروہ سمجھا ہے اوراگر معاملہ آپس میں طے نہ ہو سکے تو عورت عدالت کی طرف رجوع کر سکتی ہے۔ اس صورت میں تمام حالات کا جائزہ لے کر عدالت جو فدیہ طے کرے گی وہی نافذ العمل ہو گا اور عورت اس وقت تک اس مرد سے آزاد نہ ہو گی جب تک وہ زر فدیہ ادا نہ کر دے اور وہ مرد یا اس کی جگہ عدالت اسے طلاق نہ دے دے۔[4] خلع لینے والی کی عدت اہل علم کا مختلعہ کی عدت کے بارے اختلاف ہے جبکہ راجح بات یہی ہے کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کی بیوی کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک حیض عدت گزارے۔[5] مختلعہ سے رجوع جمہور علمائے کرام اور چاروں ائمہ کے نزدیک خلع والی عورت سے رجوع کرنے کا حق خاوند کو حاصل |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |