Maktaba Wahhabi

339 - 849
کے آخری مرحلے میں ۔[1] بالفاظ دیگر اس مد سے دینی مدارس کا قیام اور اس کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ہر وہ ادارہ بھی اس مصرف میں شامل ہے جو زبانی یا تحریری طور پر دینی خدمات سرانجام دے رہا ہے یا اسلام کا دفاع کر رہا ہو۔ بعض علماء کے نزدیک اس مد سے مساجد کی تعمیر و مرمت پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔[2] مسافر خواہ فقیر ہو یا غنی اگر دوران سفر اسے ایسی ضرورت پیش آ جائے تو اس کی بھی مدد کی جا سکتی ہے مثلاً فی الواقع کسی کی جیب کٹ جائے یا مال چوری ہو جائے، وغیرہ۔[3] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مال دار پر زکوٰۃ حرام ہے بجز پانچ قسم کے مال داروں کے۔ ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو، دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے، تیسرا قرض دار، چوتھا راہِ الٰہی کا غازی مجاہد، پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو، دے۔[4] (عام حالات میں ) محتاج زکوٰۃ کے زیادہ حق دار ہیں واضح رہے کہ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم کے لحاظ سے معاشرہ کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک اغنیاء کا طبقہ جن سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی دوسرا فقراء و مساکین یا مقروضوں وغیرہ کا طبقہ جسے زکوٰۃ دی جائے گی اور تیسرا متوسط طبقہ جس پر زکوٰۃ تقسیم نہیں ہوتی۔ تاہم وہ زکوٰۃ کا مستحق بھی قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کے آمدنی کے ذرائع اتنے ہوتے ہیں جس سے اس کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں غنی کی عام تعریف یہ ہے کہ جس شخص کے پاس محل نصاب اشیاء میں سے کوئی چیز بقدر نصاب یا اس سے زائد موجود ہو وہ غنی ہے اور جس کے پاس کوئی چیز بھی بقدر نصاب موجود نہ ہو وہ فقیر یا مسکین ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ زکوٰۃ جس مقام کے اغنیاء سے وصول کی جائے گی اس کے سب سے زیادہ حق دار اسی مقام کے فقراء ہوتے ہیں اگر کچھ رقم بچ جائے تو وہ مرکزی بیت المال میں جمع ہو گی اس سلسلہ میں اب درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے: سیّدنا ابراہیم بن عطاء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمران بن حصین کو زکوٰۃ کی وصولی پر روانہ کیا گیا۔ وہ خالی ہاتھ واپس آ گئے تو ان سے پوچھا گیا کہ زکوٰۃ کا مال کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کے واسطے روانہ کیا گیا۔ میں نے جن لوگوں سے لینا چاہیے تھا لیا اور جہاں دینا
Flag Counter