Maktaba Wahhabi

378 - 849
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المومنین میمونہ بنت حارث کے ہاں سویا میں تو بچھونے کی چوڑان میں لیٹا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی لمبے رخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آرام فرمایا اور کم وبیش آدھی رات کے وقت آپ اٹھے بیٹھ کر اپنی آنکھیں ملنے لگے پھر اچھی طرح وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں نے بھی اٹھ کر وضو کیا اور آپ کی بائیں جانب ساتھ ہی کھڑا ہوگیا آپ نے اپنا دائیاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور دایاں کان پکڑ کر مجھے اپنے دائیں طرف کر دیا، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر دو، پھر دو، پھر دو، پھر دو، پھر دو (کل بارہ رکعات) پھر وتر پڑھا پھر لیٹ رہے تاآنکہ موذن آپ کے پاس آیا پھر آپ نے دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھیں پھر باہر نکلے اور صبح کی نماز پڑھائی۔[1] سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے رات تہجد کی نماز کے متعلق سوال کیا آپ نے فرمایا: دو دو رکعت کر کے پڑھو پھر جب کسی کو صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ لے وہ ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔‘‘ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے کہ آپ نے یہ حکم دیا ہے کہ رات کی نماز کے اخیر میں وتر پڑھا کرو۔[2] امت کے لیے یہ نماز اگرچہ نفل ہے اور امت پر مشقت کی وجہ سے اس کی فرضیت ساقط کر دی گئی ہے تاہم اس نماز کی بہت فضیلت آئی ہے اور اس کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ گویا ہماری مروجہ شرعی اصطلاح میں سنت موکدہ ہے۔[3] نماز تراویح یا قیام اللیل واضح رہے نماز تہجد کا دوسرا نام قیام اللیل ہے جیسا کہ بخاری کے عنوان باب سے بھی معلوم ہوتا ہے اور ماہ رمضان میں قیام اللیل کو نماز تراویح کا نام دیا گیا ہے، جو ماہ رمضان میں عموماً نماز عشاء کے بعد متصل ہی باجماعت نماز ادا کر لی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں یہ نماز تہجد (یا قیام اللیل یا تراویح) صرف دو دن باجماعت پڑھائی تھی پھر تیسرے یا چوتھے دن پھر لوگ نماز کے لیے جمع ہوئے تو آپ جماعت کے لیے نکلے ہی نہیں اور صبح کی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے جماعت کے لیے نہ آنے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ میں اس سے ڈر گیا کہ کہیں نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔[4]
Flag Counter