Maktaba Wahhabi

592 - 849
کر چکے ہو۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : جمہور علماء اس طرف ہیں لڑکی تو صرف عقد نکاح سے حرام نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس کی ماں سے مباشرت نہ کی ہو ہاں ماں صرف لڑکی سے عقد نکاح ہوتے ہی حرام ہو جاتی ہے گو مباشرت نہ ہوئی ہو۔[1] لے پالک کی بیوی سے نکاح کا حکم سوال : لے پالک کی بیوہ سے نکاح کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب : آدمی کے سگے بیٹے کی بیوی یعنی اس کی بہو اس پر حرام ہے جبکہ لے پالک لڑکے کی بیوہ آدمی کے لیے اس سے نکاح جائز ہے۔ قرآن میں اللہ عزوجل نے سگے بیٹے کی بیوی کو ہی حرام بتایا ہے۔ فرمان تعالیٰ ہے: ﴿وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ﴾ (النسآء: ۲۳) ’’اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشتوں سے ہیں (وہ بھی تم پر حرام ہیں )۔‘‘ ﴿فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ﴾ (الاحزاب: ۳۷) ’’تو جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اسے آپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مومنوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے کوئی حرج نہ رہے۔‘‘ رضاعی بیٹے کی بیوہ سے نکاح کرنے کا حکم سوال : رضاعی بیٹے کی بیوہ سے نکاح کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب : اس سے بھی نکاح حرام ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ النساء کی آیت نمبر ۲۳ کے ذیل میں رقمطراز ہیں : ’’اگر کوئی شخص سوال کرے کہ رضاعی بیٹے کی حرمت کیسے ثابت ہوگی کیونکہ آیت میں تو صلبی بیٹے کا ذکر ہے تو جواب یہ ہے کہ وہ حرمت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رضاعت سے وہ حرام ہے جو نسب سے حرام ہے، جمہور کا مذہب یہی ہے کہ رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے۔ بعض لوگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ـ‘‘[2]
Flag Counter