﴿وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ﴿١٥﴾ وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ﴾ ’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو بد کاری کا ارتکاب کریں ، ان پر اپنے میں سے چار مرد گواہ طلب کرو، پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو انھیں گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے، یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے۔اور وہ دونوں جو تم میں سے اس کا ارتکاب کریں سو ان دونوں کو ایذا دو، پھر اگر دونوں توبہ کر لیں تو ان سے خیال ہٹا لو، بے شک اللہ ہمیشہ سے بے حد توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ بھی کسی قرآن کی آیت سے نہیں بلکہ اپنی وضع کردہ اصول قائم مقامی کی بنا پر جس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ مرے ہوئے رشتہ داروں کو زندہ تصور کر کے قائم مقامی کا حق قائم کیا جاتا ہے ورنہ کتاب و سنت میں یتیم سے ہمدردی کی بہت سی صورتیں موجود ہیں مثلاً مرنے والا خود اس کے لیے ایک تہائی ورثہ وصیت کرنے کا حق رکھتا ہے، اس لیے کہ یتیم پوتا وارث نہیں اور وصیت ہوتی ہی غیر وارث کے لیے ہے وارث کے لیے وصیت نہیں ہو سکتی اور اگر مرنے والا وصیت نہیں کر سکا یا اس کے حق میں وصیت نہیں کرنا چاہتا تھا کہ بقیہ وارث اسے خود اپنی رضا سے اس میں شریک بنا سکتے ہیں حتیٰ کہ اگر مناسب سمجھیں تو اسے اپنی مرضی سے سارے کا سارا ترکہ بھی دے سکتے ہیں اور ان باتوں کا انہیں بھی ایسا ہی حق ہے جیسا کہ مرنے والے کو وصیت کرنے کا حق ہے، پھر اگر مرنے والے دادا کو بھی اس سے کوئی ہمدردی نہ ہو اور نہ ہی دوسرے وارثوں کو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا پوتا ہمدردی کا حق دار ہی نہیں تھا۔ ممکن ہے اپنے مرنے والے باپ سے اسے اتنا مال و دولت مل گیا ہو کہ دوسرے اسے دینے کی ضرورت ہی نہ سمجھیں ۔ اس صورت میں آپ کی ہمدردی اس کے کس کام آ سکتی ہے۔[1] تفسیر:… ﴿اَلْفَاحِشَۃَ﴾ سے یہ یہاں مراد خاص کر زنا ہے اور اس کو آنے کا مطلب اسے کرنا، براہ راست اس میں ملوث ہونا ہے۔[2] سیاہ کار عورت اور اس کی سزا ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب عادل گواہوں کی سچی گواہی سے کسی عورت کی سیاہ کاری ثابت ہو |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |