Maktaba Wahhabi

128 - 849
ریاکار کا انجام اس کی ریاکاری خود اس کی دلیل ہے کہ وہ خدا اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا محض لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرنا صریحاً یہ معنی رکھتا ہے کہ خلق ہی اس کی خدا ہے جس سے وہ اجر چاہتا ہے اللہ سے نہ اس کو اجر کی توقع ہے اور نہ اسے یقین ہے کہ ایک روز اعمال کا حساب ہو گا، اور اجر عطا کیے جائیں گے۔[1] چونکہ ریاکار کی نیت ہی درست نہیں ہوتی اور نیت ہی اصل بیج ہے، لہٰذا ایسا بیج بار آور نہیں ہو سکتا … چنانچہ حدیث میں آیا ہے، سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن پہلا آدمی جس کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہو گا اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو پھر تم نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں تیری راہ میں لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہو گیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھوٹ کہتے ہو۔ تم تو اس لیے لڑتے رہے کہ لوگ تجھے بہادر کہیں اور وہ دنیا میں کہلوا چکے۔ پھر اللہ فرشتوں کو حکم دے گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔ پھر ایک اور شخص کو لایا جائے گا جس نے دین کا علم سیکھا اور لوگوں کو سکھلایا اور قرآن پڑھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: پھر تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں نے خود علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور قرآن پڑھتا پڑھاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم جھوٹ کہتے ہو، تم نے تو علم اس لیے سیکھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھتا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں اور تجھے دنیا میں عالم اور قاری کہا جا چکا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے دوزخ میں جا پھینکیں گے۔ پھر ایک اور شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ نے ہر قسم کے مال سے نوازا تھا اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ اس سے پوچھے گا پھر تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں نے ہر اس راہ میں مال خرچ کیا جس میں تو پسند کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھوٹ کہتے ہو۔ تم تو اس لیے خرچ کرتے تھے کہ لوگ تمہیں سخی کہیں اور وہ تم کو دنیا میں کہا جا چکا۔ پھر فرشتوں کو حکم ہو گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔[2] رَبْوَۃٌ کا لغوی مفہوم ’’ربوۃ‘‘ ربو سے مشتق ہے جس کا معنی بڑھنا اور پھلنا پھولنا ہے اور ربوہ سے مراد ایسی زمین ہے جس کی سطح عام زمین سے قدرے بلند ہو اور قدرے نرم ہو ایسی زمین عموماً سرسبز و شاداب ہوتی ہے پنجابی زبان میں اسے میرا زمین کہتے ہیں اور ’’وابل‘‘ زور دار بارش۔[3]
Flag Counter