Maktaba Wahhabi

193 - 849
میرات کی تقسیم سے متعلقہ احکام نازل ہونے سے پہلے مسلمانوں پر وصیت فرض کی گئی تھی کہ وہ اپنی موت سے پہلے اپنے والدین اور دوسرے اقربا کے متعلق وصیت کر جائیں کہ انہیں میت کی جائیداد سے کتنا کتنا حصہ دیا جائے … پھر جب اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں خود ہی والدین کے حصے مقرر فرما دئیے (جسے علم الفرائض یا علم میراث کی اصطلاح میں ذوی الفروض یا ذوی الفرائض کہتے ہیں تو ان آیات میراث کی رُو سے وصیت کی فرضیت ختم ہو گئی … البتہ اس وصیت پر سنت نبویہ کی رُو سے دو پابندیاں لگا دی گئیں ۔ ایک یہ کہ کوئی شخص اپنے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا اور دوسرے یہ کہ وصیت ذوی الفروض کے حق میں نہیں کی جا سکتی۔ جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں ان دونوں باتوں کی وضاحت آ گئی ہے اور ان دونوں پابندیوں کی غرض و غایت یہ ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصوں میں گڑ بڑ اور بے انصافی ہو جاتی ہے۔[1] مطلب آیت مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں عدل سکھاتا ہے، اہل جاہلیت تمام مال لڑکوں کو دیتے تھے اور لڑکیاں خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ بھی مقرر کر دیا ہاں دونوں کے حصوں میں فرق رکھا اس لیے کہ مردوں کے ذمہ جو ضروریات ہیں وہ عورتوں کے ذمہ نہیں مثلاً اپنے متعلقین کے کھانے پینے اور خرچ اخراجات کی کفالت، تجارت اور کسب اور اسی طرح کی اور مشقتیں تو انہیں ان کی حاجت کے مطابق دوگنا دلوایا۔ نکتہ:… بعض دانا بزرگوں نے یہاں ایک نہایت باریک نکتہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے ماں باپ کو ان کی اولادوں کے بارے میں وصیت کر رہا ہے، پس معلوم ہوا کہ ماں باپ اپنی اولاد پر اتنے مہربان نہیں جتنا مہربان ہمارا خالق اپنی مخلوق پر ہے۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیدیوں میں سے ایک عورت کا بچہ اس سے چھوٹ گیا وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتی پھرتی تھی اور جیسے ہی ملا اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر اپنے اصحاب سے فرمایا:’’ بھلا بتلاؤ تو کیا یہ عورت باوجود اپنے اختیار کے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟ لوگوں نے کہا :اے اللہ کے رسول! ہرگز نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے۔‘‘[2]
Flag Counter