Maktaba Wahhabi

609 - 849
بھی ہوں ۔ دوسرے وہ جو تمہارے پہلو میں یا تمہارے مکان کے پاس تو رہتے ہوں مگر تمہارے رشتے دار نہ ہوں ۔ تیسرے وہ جو تمہاری سوسائٹی سے متعلق ہوں ۔ مثلاً وہ دوست احباب جو کہ ایک جگہ مل بیٹھتے ہوں یا کسی دفتر میں یا دوسری جگہ اکٹھے کام کرتے ہوں اور اکثر میل ملاقات رہتی ہو۔ حسن سلوک تو ان سب سے کرنا چاہیے تاہم اسی ترتیب سے الاقرب فالاقرب کا خیال ضرور رکھا جائے سب سے زیادہ حقدار رشتہ دار ہمسائے ہیں پھر ان کے بعد اپنے گھر کے آس پاس رہنے والے ہمسائے اور ایک روایت کے مطابق ایسے ہمسائیوں کی حد چالیس گھروں تک ہے پھر ان کے بعد ان ہمسائیوں کی باری آتی ہے جو اپنے ہم نشین، ہم جماعت یا کولیگ ہوں ۔ مندرجہ بالا احادیث سے نہایت اہم چیز جو سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام معاشرتی زندگی اور مل جل کر رہنے کا زبردست مؤید ہے۔ آج کے دور میں کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہائش ہے جہاں ساتھ والے ہمسائے تک کو اس کی غمی یا خوشی کی خبر تک نہیں ہوتی۔ یہ اسلامی نظریہ معاشرت کے عین برعکس ہے… الخ[1] اگر نیند آرہی ہو تو نماز کے احکام سوال : کیا نیند آرہی ہو تو نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ جواب : نہیں ! بلکہ نماز چھوڑ کر سو لیا جائے پھر حواس قائم ہونے پر اسے پڑھ لیا جائے۔ [2] سوال : میں نوجوان لڑکی ہوں اکثر اوقات نیند کی وجہ سے میری عشاء کی نماز فوت ہو جاتی ہے، میں اس کی قضا دوسرے دن صبح کے وقت یا اس کے بعد کسی بھی وقت دیتی ہوں اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ جواب : شرعی حکم یہ ہے کہ نماز میں اس قدر سستی کرنا کہ اس کا وقت ہی نکل جائے کسی کے لیے جائز نہیں ہے اگر انسان سو رہا ہو تو اس کے لیے کسی ایسے شخص کی ڈیوٹی لگانا ممکن ہے جو اسے نماز کے لیے جگائے، عشاء کی نماز کو صبح تک لیٹ کر نادرست نہیں ہے، نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا واجب ہے۔ اس نوجوان لڑکی کے لیے واجب ہے کہ وہ گھر والوں کوا س بات پر آمادہ کرے کہ وہ اسے نماز کے لیے جگا دیا کریں ۔ بالفرض اگر کوئی شدید عارضہ لاحق ہو یا اس پر نیند کا غلبہ شدید ہو اور ڈر ہو کہ وہ صبح تک بیدار نہیں ہو سکے گی تو اس صورت میں اگر وہ مغرب اور عشاء کی نماز کو جمع کر لے تو کوئی حرج نہیں مگر ایسا کرنا صرف خاص عوارض کی بناء پر جائز ہوگا۔ جیسے کہ وہ کئی راتیں جاگتی رہی ہو یا اسے کوئی شدید بیماری لاحق ہو۔[3]
Flag Counter