Maktaba Wahhabi

490 - 849
’’پہچان لی جائیں ۔‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ان کا سادہ اور حیا دار لباس دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کر وہ شریف اور باعصمت عورتیں ہیں آوارہ اور کھلاڑی نہیں ہیں کہ کوئی بدکردار انسان ان سے اپنے دل کی تمنا پوری کرنے کی امید کر سکے ’’نہ ستائی جائیں ۔‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ان کو چھیڑا نہ جائے ان سے تعرض نہ کیا جائے۔[1] مغربیت اور قرآن اصل لفظ ہیں : ﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ﴾ جلباب عربی میں بڑی چادر کو کہتے ہیں اور ادناء کے اصل معنی قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں مگر جب اس کے ساتھ علی کا صلہ آئے تو اس میں ارخاء یعنی اوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے موجودہ زمانے کے بعض مترجمین ومفسرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف لپیٹ لینا کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ ’’یدنین الیہن‘‘ فرماتے ہیں جو شخص عربی جانتا ہے وہ کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ یدنین علیہنَّ کے معنی محض لپیٹ لینے کے ہو سکتے ہیں مزید برآں من جلابیبہن کے الفاظ یہ معنی لینے میں اور زیادہ مانع ہیں ظاہر ہے کہ یہاں من تبعیض کے لیے ہے یعنی چادر کا ایک حصہ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ لپیٹی جائے گی تو پوری چادر لپیٹی جائے گی نہ کہ اس کا محض ایک حصہ اس لیے آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادر اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ یا ان کا ایک پلو اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں جسے عرف عام میں گھونگٹ ڈالنا کہتے ہیں ۔[2] نقلی لحاظ سے بھی یہ توجیہ غلط ہے یہ سورۃ الاحزاب ذیقعدہ ۵ہجری میں نازل ہوئی اور واقعہ افک شوال ۶ ہجری میں پیش آیا اور واقعہ افک بیان کرتے ہوئے خود سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اسی جگہ بیٹھی رہی اتنے میں میری آنکھ لگ گئی ایک شخص صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ اس مقام پر آئے اور دیکھا کوئی سو رہا ہے اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا اس نے مجھے دیکھ کر ﴿إِنَّآ لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾ پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔[3] اب سوال یہ ہے کہ اگر ﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ﴾ کا معنی وہ ہے جو یہ حضرات ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں تو کیا (معاذ اللہ) سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کا معنی غلط سمجھا تھا۔[4]
Flag Counter