﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ﴿٢٢٢﴾ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ’’اور وہ آپ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں ، کہہ دیجیے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں ، پھر جب وہ غسل کر لیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمھیں اللہ نے حکم دیا ہے۔ بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں ۔تمھاری عورتیں تمھارے لیے کھیتی ہیں ، سو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ اور اپنے لیے آگے (سامان) بھیجو اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ یقینا تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ ‘‘ تفسیر:… ’’المحیض‘‘ یہ حَاضَ ضَرَبَ یَضْرِبُ سے مصدر ہے۔ اس کلمے کا اصل معنی بہنا اور پھٹنا ہے۔ کہا جاتا ہے حَاضَتِ الشَّجَرَۃُ یعنی درخت کی رطوبت بہہ پڑی اور اسی سے ’’حیض‘‘ یعنی حوض ہے، کیونکہ پانی اس کی طرف بہا کرتا ہے۔[1] ’’اَذًی‘‘ اس کے معنی گندگی کے بھی ہیں اور بیماری کے بھی۔ حیض صرف گندگی ہی نہیں بلکہ طبی حیثیت سے وہ ایک ایسی حالت ہے جس میں عورت تندرستی کی نسبت بیماری سے قریب تر ہوتی ہے۔[2] حیض کے دنوں اور جماع کے مسائل کی تفصیل حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’یہودی لوگ حائضہ عورتوں کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے تھے اور نہ اپنے ساتھ رکھتے تھے، صحابہ نے اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، جس کے جواب میں یہ آیت اتری اور حضور نے فرمایا: ’’سوائے جماع کے اور سب کچھ حلال ہے۔‘‘ یہودی یہ سن کر کہنے لگے کہ ’’انہیں تو ہماری مخالفت سے ہی غرض ہے۔‘‘ |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |