Maktaba Wahhabi

325 - 849
سورة التوبة مدنية ﴿ فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ’’پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ ہوئی تو اس دین کو یہ موقع بھی حاصل ہو گیا کہ اپنے اثرات نسبتاً زیادہ امن و اطمینان کے ماحول میں ہر چہار طرف پھیلا سکے۔ اس کے بعد واقعات کی رفتار نے دو بڑے راستے اختیار کیے جو آگے چل کر نہایت اہم نتائج پر منتہی ہوئے۔ ان میں سے ایک کا تعلق عرب سے تھا اور دوسرے کا سلطنت روم سے۔[1] مشرکین سے اعلان براء ت اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے حج کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آ کر بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں خلط ملط ہونا ناپسند فرما کر سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ مکرمہ روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو حج کے احکام سکھلائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں وہ آئندہ سال حج کے لیے نہ آئیں اور سورۂ براء ۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کر دیں آپ کے پیچھے پھر سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں ۔[2] مشرکوں سے جنگ نہ کرنے کی شرائط تفسیر:… اسی لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کر لیں پابند نماز ہو جائیں ، زکوٰۃ دینے لگیں تو بے شک ان کی راہیں کھول دو ان پر سے تنگیاں اٹھا لو۔ زکوٰۃ کے مانعین سے جہاد کرنے کی اس جیسی آیتوں سے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرط پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام کے واجبات بجا
Flag Counter