ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھا کرتے تھے ہاں پیشاب کریں یا وضو ٹوٹ جائے تو نیا وضو کر لیا کرتے اور وضو ہی کے بچے ہوئے پانی سے جرابوں پر مسح کر لیا کرتے یہ دیکھ کر حضرت فضیل بن مبشر رحمہ اللہ نے سوال کیا کہ کیا آپ اسے اپنی رائے سے کرتے ہیں ؟ فرمایا نہیں بلکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔[1] مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرتے دیکھ کر خواہ وضو ٹوٹا ہو یا نہ ٹوٹا ہو ان کے صاحب زادے عبیداللہ سے سوال ہوتا ہے کہ اس کی کیا سند ہے؟ فرمایا: ان سے حضرت اسماء بنت زید بن خطاب نے کہا ہے کہ ان سے حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ نے جو فرشتوں کے غسل دئیے ہوئے کے صاحبزادے تھے بیان کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرنماز کے لیے تازہ وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اس حالت میں کہ وضو باقی ہو تب بھی نہ ہو تو تب بھی۔ مگر اس میں قدرے مشقت معلوم ہوئی تو وضو کے حکم کے بدلے مسواک کا حکم رکھا گیا۔ مگر جب وضو ٹوٹے تو نماز کے لیے نیا وضو ضروری ہے اسے سامنے رکھ کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ چونکہ انہیں قوت ہے، اس لیے وہ ہر نماز کے لیے وضو کرتے ہیں آخری دم تک آپ کا یہی حال رہا۔[2] حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے اس فعل اور اس پر ہمیشگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مستحب ضرور ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے۔[3] وضو کس لیے ہے؟ سنن ابو داؤد میں ہے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے اور کھانا آپ کے سامنے لایا گیا تو ہم نے کہا: اگر فرمائیں تو وضو کا پانی حاضر کریں ۔ فرمایا: وضو کا حکم تو مجھے صرف نماز کے لیے کھڑا ہونے کے وقت ہی کیا گیا ہے۔ [4] ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے نماز تھوڑا ہی پڑھنی ہے جو میں وضو کروں ؟[5] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |