یہی حق ہے کیونکہ جگہ کی تعیین پر کوئی دلیل نہیں ملتی۔[1] مشروط احرام بھی باندھا جا سکتا ہے ضباعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میرا حج کرنے کا ارادہ ہے لیکن میں بیمار ہوں ۔ ایسی صورت میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج کرو اور (اللہ سے) شرط کر لو: اے اللہ! میں اسی جگہ احرام کھول دوں گی جہاں تو مجھے روکے گا۔[2] حج کی اقسام اور مسائل دور جاہلیت میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ عمرہ کے لیے الگ اور حج کے لیے الگ سفر کرنا ضروری ہے اللہ تعالیٰ نے یہ قید ختم کر دی۔ مواقیت کے باہر سے آنے والے ایک ہی سفر میں حج و عمرہ دونوں کر سکتے ہیں اس کی پھر دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ احرام باندھ کر عمرہ کرے پھر احرام نہ کھولے (نہ سر منڈوائے) تاآنکہ حج کے بھی ارکان پورے کر لے۔ ایسے حج کو قِران کہتے ہیں اور اگر عمرہ کر کے سر منڈا لے اور احرام کھول دے پھر حج کے لیے نیا احرام باندھے تو اسے حج تمتع کہتے ہیں اور اسی حج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند کیا ہے۔ قِران اور تمتع کرنے والے پر قربانی لازم ہے، یعنی ایک بکری یا گائے اور اونٹ جس میں سات آدمی شامل ہو سکتے ہیں ، اگر کسی کو قربانی میسر نہ آ سکی تو وہ دس روزے رکھ لے، تین روزے تو نویں ذوالحجہ یعنی عرفہ تک اور باقی سات روزے حج سے فراغت کے بعد رکھے۔ چاہے گھر واپس آ کر رکھ لے۔ جو لوگ مواقیت کی حدود میں رہتے ہیں صرف حج کا احرام باندھ کر حج کریں گے جسے حج افراد کہتے ہیں اور ان پر قربانی واجب نہیں ۔[3] ان کے لیے تمتع کرنا جائز نہیں ۔[4] لفظ ’’ہَدْی‘‘ کی وضاحت اَلْہَدّیُ و الْہَدِیّ اس میں دو لغات ہیں اور یہ ہدیۃ کی جمع ہیں ۔ یہ بیت اللہ کی طرف ہدیہ کی جانے والی گائے، اونٹ وغیرہ پر بولا جاتا ہے۔[5] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |