پھر ارشاد فرمایا: ڈریں وہ لوگ جو اگر اپنے پیچھے چھوڑ جائیں ، یعنی ایک شخص اپنی موت کے وقت وصیت کر رہا ہے اور اس میں اپنے وارثوں کو ضرر پہنچا رہا ہے تو اس وصیت سننے والے کو چاہیے کہ اللہ کا خوف کرے اور اسے ٹھیک بات کی راہنمائی کرے۔ اس کے وارثوں کے لیے ایسی بھلائی چاہیے جیسے اپنے وارثوں کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے، جبکہ ان کی تباہی و بربادی کا خوف ہو۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی بیماری کے زمانے میں عیادت کے لیے آئے اور حضرت سعد نے کہا: :اے اللہ کے رسول! میرے پاس بہت مال ہے اور صرف میری ایک ہی لڑکی میرے پیچھے ہے تو اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے مال کی دو تہائیاں اللہ کی راہ میں دے دوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔ انہوں نے کہا: پھر ایک تہائی کی اجازت دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر، لیکن یہ بھی زیادہ ہے تو اگر اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو تونگر چھوڑ کر جائے۔ اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔[1] سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’ لوگ ایک تہائی سے بھی کم، یعنی چوتھائی ہی کی وصیت کریں تو اچھا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کو بھی زیادہ فرمایا ہے۔‘‘[2]دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم یتیموں کا اتنا ہی خیال رکھو جتنا تم چاہتے ہو کہ تمہاری چھوٹی اولاد کا تمہارے مرنے کے بعد دوسرے لوگ خیال رکھیں ۔ یہ مطلب بھی بہت عمدہ ہے اسی لیے اس کے بعد ہی یتیموں کا مال ناحق مار لینے والوں کی سزا بیان کی کہ یہ لوگ اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے والے جہنم واصل ہونے والے ہیں ۔ یتیموں کا مال کھانے والے بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ پوچھا گیا کون سے؟ ارشاد فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک، جادو، بے وجہ قتل، سود خوری، یتیم کا مال کھا جانا، میدان جنگ سے فرار اختیار کرنا، بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا۔[3] ’’ان کے مال سے بچو‘‘ سورۃ البقرۃ کی تفسیر کے ضمن میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو جن کے پاس یتیم تھے تو انہوں نے ان کا اناج پانی بھی الگ کر دیا اب عموماً ایسا ہوتا کہ کھانے پینے کی ان کی کوئی چیز بچ رہتی تو یا تو دوسرے وقت اسی باسی چیز کو کھاتے یا سڑنے کے بعد پھینک دی جاتی، گھر والوں میں سے کوئی اسے ہاتھ بھی نہ لگاتا تھا۔ یہ بات دونوں طرف ناگوار گزری۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |