Maktaba Wahhabi

203 - 849
اسی طرح اگر عصبہ نہ مل رہا ہو تو اس کے برعکس صورت بھی پیش آ سکتی ہے، مثلاً میت مرد ہے جس کی بیوی فوت ہو چکی ہے۔ ماں زندہ ہے لیکن باپ فوت ہو چکا ہے دادا بھی نہیں اور اولاد صرف ایک لڑکی ہے گویا اس کے وارث صرف ماں اور بیٹی ہیں اور عصبہ کوئی بھی نہیں مل رہا۔ حصوں کے لحاظ سے جائیداد ۶ حصوں میں تقسیم ہو گی جن میں سے ۳ حصے تو بیٹی لے گی اور ایک حصہ ماں ، باقی دو حصے بچ جائیں گے ایسی صورت کو فقہی اصطلاح میں ردّ کہتے ہیں ۔ اس صورت میں یہ حصے بھی اسی نسبت سے ان دونوں کو مل جائیں گے۔ (واضح رہے کہ ذوی الفروض کی موجودگی میں بقیہ ترکہ ذوی الارحام کو نہیں ملتا بلکہ پھر انہی پر تقسیم ہو جاتا ہے)۔ ۳۔ تیسری عام صورت یہ ہے کہ ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور ابھی اولاد بھی نہ ہوئی تھی کہ زوجین میں سے کسی کا انتقال ہو گیا اور اس کے والدین زندہ ہیں لیکن اور کوئی بہن بھائی نہیں تو اس صورت میں ماں کا ایک تہائی، میت اگر ایک مرد ہے تو عورت کو ایک چوتھائی اور باقی ۱۲/۵ باپ کو ملے گا اور اگر میت عورت ہے تو ماں کے ۴ حصے خاوند کے ۶ حصے اور باپ کو صرف ۲ حصے یا ماں کا نصف ملے گا (صحیح یہ ہے کہ ماں کو خاوند کو دینے کے بعد باقی ماندہ مال سے تہائی یعنی ۲ حصے دے کر باقی باپ کو دیں گے) اور اگر بہن بھائی بھی ہیں تو ماں کو ۶/۱ حصہ ملے گا، یعنی ماں کے دو حصے بیوی کے تین حصے باقی سات حصے باپ کو ملیں گے اور اگر میت بیوی تھی تو ماں کے ۲ خاوند کو اور باپ کو ۴ حصے مل جائیں گے۔ یہ چند صورتیں بیان کر دی گئی ہیں ۔ ورنہ میراث کی اتنی صورتیں بن جاتی ہیں جن کا حصر ان حواشی میں ممکن نہیں ۔ راقم نے ان کی تفصیل اپنی کتاب ’’تجارت اور لین دین کے احکام‘‘ کے پندرہویں باب ’’احکام وراثت‘‘ میں درج کر دی ہے۔[1] اللہ کی صفت علم و حلم یہاں اللہ تعالیٰ کی صفت علم کا اظہار دو وجوہ سے کیا گیا ہے: ایک یہ کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے اور اللہ کی صفت حلم یعنی اس کی نرم خوئی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ نے قوانین مقرر کرنے میں سختی نہیں کی ہے بلکہ ایسے قاعدے مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں ۔[2]
Flag Counter