Maktaba Wahhabi

652 - 849
چہرے پر جڑی بوٹیاں اور کریم لگانے کے احکام و مسائل سوال : چہرے پر نمودار ہونے والی بعض امراض کے علاج کی خاطر اس پر بعض کھانے والی اشیاء لگانے کا کیا حکم ہے؟ جواب : یہ بات تو معلوم ہے کہ کھانے پینے والی اشیاء کو اللہ تعالیٰ نے بدن کی غذا کے لیے پیدا کیا ہے لیکن جب انسان ان کو کسی اور کام کے لیے استعمال میں لے آئے جیسے علاج معالجہ تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ (البقرۃ: ۲۹) ’’وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ چنانچہ فرمان الٰہی میں لفظ (لکم) سے اللہ کی پیدا کردہ جملہ اشیاء سے عمومی فائدہ اٹھانا سمجھ آتا ہے بشرطیکہ ان کے کسی استعمال کرنا تو گگارش یہ ہے کہ حسن کو دو بالا کرنے کے لیے ان اشیائے خورد ونوش کے علاوہ جو دیگر چیزیں موجود ہیں ان کو استعمال میں لانا اولیٰ اور افضل ہے۔ زیب وزینت اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند کرتے ہیں لیکن اس میں فضول خرچی کرنا اور اس حد تک پہنچ جانا کہ انسان کی سب سے بڑی فکر ہی حسن وزیبائش کو بڑھانا بن جائے اور اس وجہ سے دین ودنیا کی اکثر مصالح سے غفلت برتے تو ایسا کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ اسراف کے زمرے میں آتا ہے اور اللہ عزوجل اسراف کو پسند نہیں کرتے۔[1] سوال : ایسی کریمیں استعمال کرنا جس سے عورت کا گندمی رنگ سفید ہو جائے اس کا کیا حکم ہے؟ جواب : اگر تو ان کریموں سے جلد کا رنگ مستقل طورپر بدل جاتا ہے تو یہ حرام ہے کیونکہ یہ (گودنا) ’’وشم‘‘ کے مشابہ ہے اور یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واشمہ (گودنے والی) اور مستوشمہ (گدوانے والی) پر لعنت فرمائی ہے لیکن اگر کسی عیب کے ازالے کے لیے یہ کریمیں استعمال کی جائیں جیسا کہ جلد میں موجود کسی بھدے اور بدنما تل زائل کرنے کی خاطر انسان یہ ادویات اور کریمیں استعمال کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم زیب و زینت اور حسین بننے کی خاطر ان کریموں کو استعمال کرنے اور کسی عیب کے ازالے کی خاطر ان کو استعمال کرنے کے درمیان جو فرق ہے اس کو سمجھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو جس کی ناک کٹ گئی تھی۔ ناک کٹنے سے جو عیب پیدا ہوا تھا اس کے ازالے کی خاطر اسے سونے کی ناک لگانے کی اجازت دی تھی۔
Flag Counter