دُور کے رشتہ داروں کو حصہ پانے سے محروم کر دے۔[1] وہ ورثاء جن کے حصے سنت میں درج ہیں کتاب و سنت میں جن ورثاء کے حصے مقرر کر دئیے گئے ہیں انہیں ذوی الفروض کہتے ہیں ۔ قرآن کے علاوہ درج ذیل ورثاء کے حصے سنت کی رو سے مقرر ہیں ، چنانچہ درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے: دادا،دادی اور نانی کا حصہ وضاحت پیچھے گزر چکی۔ اگر ایک بیٹی اور ایک پوتی ہو سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بیٹی پوتی اور بہن کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:’’ بیٹی کو نصف ملے گا پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ دو تہائی پورا ہو جائے (مونث اولاد کا زیادہ سے زیادہ حصہ) باقی بہن کو ملے گا۔‘‘[2] اگر ایک بیٹی اور ایک بہن ہو اسود بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل یمن میں ہمارے پاس معلم اور امیر بن کر آئے ہم نے ان سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے مرتے وقت ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی انہوں نے بیٹی کو نصف دیا اور بہن کو بھی نصف دیا۔[3] ابو داوٗد میں یہ الفاظ زیادہ ہیں : ’’اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقید حیات تھے۔‘‘[4] بھتیجے کا حصہ پھوپھی سے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ تعجب سے فرمایا کرتے تھے کہ ’’بھتیجا تو پھوپھی کا وارث ہے مگر پھوپھی بھتیجے کی وارث نہیں ۔[5] مزید احکام وراثت ۱۔ ذوی الفروض جن کے حصے کتاب و سنت نے مقرر کر دئیے ہیں ان کی تفصیل اوپر گزر چکی۔ ۲۔ وارثوں کی اقسام: عصبات، عصبہ میت کے قریب ترین مرد رشتہ دار مرد کو کہتے ہیں اور ذوی الفروض کی ادائیگی کے بعد جو بچے وہ اسے ملتا ہے جیسے سعد بن ربیع کے بھائی کو آپ نے دو بیٹیوں کا ۳/۲ اور بیوی |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |