درحقیقت ایسا نتیجہ نکالنے کے لیے اس آیت میں کوئی گنجائش نہیں ہے اگر صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا گیا ہوتا کہ ’’تم عورتوں کے درمیان عدل نہیں کر سکتے۔‘‘ تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا تھا مگر اس کے بعد ہی یہ جو فرمایا گیا کہ ’’لہٰذا ایک بیوی کی طرف بالکل نہ جھک پڑو۔‘‘ اس فقرے نے کوئی موقع اس مطلب کے لیے باقی نہیں چھوڑا جو مسیحی یورپ کی تقلید کرنے والے حضرات اس سے نکالنا چاہتے ہیں ۔[1] اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے: ا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف میلان رکھے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔[2] ب… سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ جب (مرض الموت) میں بیمار ہوئے اور بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی بیویوں سے اجازت لی کہ آپ کی تیمارداری میرے گھر میں کی جائے تو تمام بیویوں نے آپ کو اجازت دے دی۔[3] میاں بیوی میں عدم نباہ کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ اگر ان میں نباہ اور حسن معاشرت کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی ہو تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانہ میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور جہنم زار بنا رہے۔ اس سے بہتر ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں خواہ مرد طلاق دے دے یا عورت خلع لے لے۔ پھر دونوں کا اللہ مالک ہے وہ ان کے لیے بہت سامان پیدا فرما دے گا۔[4] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |