Maktaba Wahhabi

338 - 849
مانگ کر کچھ لے کر کھائیں گے تو حرام کھائیں گے۔[1] ایک شخص نے زمانۂ نبوی میں ایک باغ خریدا۔ قدرت رب سے آسمانی آفت سے باغ کا پھل مارا گیا اس سے وہ بہت قرض دار ہو گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں جو ملے لے لو اس کے سوا تمہارے لیے کچھ نہیں ۔[2] اللہ کی راہ میں یہ لڑنے والے اور پہرہ دینے والے ہیں انہیں صدقہ میں سے مال دیا جائے گا جسے یہ اپنی لڑائی اور پہرے میں خرچ کر سکیں اگرچہ یہ امیر ہی کیوں نہ ہوں اور یہ اکثر علماء کا قول ہے جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے۔ یہ حاجی اور عمرہ کرنے والے ہیں ۔[3] ’’راہ للہ ‘‘ کا لفظ عام ہے۔ نیکی کے وہ تمام کام جن میں اللہ کی رضا ہو اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی رُو سے زکوٰۃ کا مال ہر قسم کے نیک کاموں میں صرف کیا جا سکتا ہے لیکن حق یہ ہے اور ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے، یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظام کفر کو مٹانا اور اس کی جگہ اسلامی نظام کو قائم کرنا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفر خرچ کے لیے سواری کے لیے۔آلات و اسلحہ اور سروسامان کی فراہمی کے لیے زکوٰۃ سے مدد دی جا سکتی ہے خواہ وہ بجائے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو اسی طرح جو لوگ رضاکارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت۔ عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دے دیں ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی زکوٰۃ سے وقتی یا استمراری دی جا سکتی ہیں ۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں اس موقع پر غزو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قتال کا ہم معنی ہے اس لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مصارف میں جو فی سبیل اللہ کی مد رکھی گئی ہے وہ صرف قتال کے لیے مخصوص ہے لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ، قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمہ کفر کو پست کر کے کلمہ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں ۔ خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں یا قتال
Flag Counter