سورۃ عبس شان نزول ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چند قریشی سردار بیٹھے تھے اور آپ انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تھے، روایات میں ان کے نام عتبہ، شیبہ، ابوجہل اور امیہ بن خلف ملتے ہیں ۔ یہ لوگ بعد میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بدترین دشمن ثابت ہوئے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب قریشی سردار اسلام دشمنی کی حد تک نہیں پہنچے تھے اسی دوران سیّدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے، یہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے۔ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے، انہوں نے آتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی آیت کا مطلب پوچھا جو لوگ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے انہیں آپ دیکھ نہیں سکتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار محسوس ہوا اور اس ناگواری کے اثرات آپ کے چہرہ پر بھی نمودار ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور انہیں خاموش کرا دیا، جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ سیّدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے مطمئن تھے کہ وہ خالص مومن ہیں انہیں بعد میں سمجھا لیں گے سردست اگر ان سرداروں میں سے کوئی ایک بھی اسلام کے قریب آگیا تو اس سے اسلام کو خاصی تقویت پہنچ سکتی ہے اسی وجہ سے آپ قریشی سرداروں سے ہی محو گفتگو رہے اس وقت یہ سورت نازل ہوئی۔[1] اس سورت میں ظاہراً عتاب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر آتا ہے لیکن سورت پر مجموعی حیثیت سے غور کیا جائے تو یہ عتاب سرداران قریش پر نظر آتا ہے۔[2] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |