Maktaba Wahhabi

141 - 849
قرار دی گئی ہے اب یہ اسلام کا اپنا مزاج ہے کہ وہ عورت کو گھر سے باہر کھینچ لانے کو پسند نہیں کرتا جبکہ موجودہ مغربی تہذیب اور نظام جمہوریت اسلام کے اس کلیے کی عین ضد ہے، عورت کی گواہی کو صرف اس صورت قبول کیا گیا ہے جب کوئی دوسرا گواہ میسر نہ آ سکے اور اگر دوسرا گواہ میسر آ جائے تو اسلام عورت کو شہادت کی ہرگز زحمت نہیں دیتا۔ مختلف مواقع پر عورت کی گواہی کی مختلف قدر و قیمت عورت کے اسی نسیان کی بنا پر فوج داری مقدمات میں اس کی شہادت قابل قبول نہیں کیونکہ ایسے مقدمات میں معاملے کی نوعیت سنگین ہوتی ہے مالی معاملات میں عورت کی گواہی قبول تو ہے لیکن دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر رکھا گیا ہے اور عائلی مقدمات میں چونکہ زوجین ملوث ہوتے ہیں اور وہ ان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے جہاں نسیان کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے، لہٰذا ایسے مقدمات میں میاں بیوی دونوں کی گواہی برابر نوعیت کی ہو گی اور وہ معاملات جو بالخصوص عورتوں کے متعلق ہوتے ہیں وہاں عورت کی گواہی کو مرد کے برابر ہی نہیں بلکہ معتبر قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً مرضعہ اگر رضاعت کے متعلق گواہی دے تو وہ دوسرں سے معتبر سمجھی جائے گی خواہ یہ دوسرا کوئی مرد ہو یا عورت ہو، ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں نہ عورت کی تحقیر بیان ہوئی ہے اور نہ کسی کے حق کی حق تلفی کی گئی ہے۔ بلکہ رزاق عالم نے جو بھی قانون عطا فرمایا ہے وہ کسی خاص مصلحت اور اپنی حکمت کاملہ سے ہی عطا فرمایا ہے اور جو مسلمان اللہ کی تضحیک کرتا یا مذاق اڑاتا ہے اسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے اور ایسے لوگوں کے اسلام سے منسلک رہنے کی کوئی ضرورت نہیں دل سے تو وہ پہلے ہی اللہ کے باغی بن چکے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کو کافروں سے بھی زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں ۔[1]
Flag Counter