Maktaba Wahhabi

107 - 849
((فَلَوْ اَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ)) سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ تعزیر و تادیب کے لیے تھا تاکہ لوگ اس بد عادت سے باز آ جائیں۔[1] ایک مجلس میں ایک سے زیادہ طلاقیں دینے کی بد عادت دور جاہلیت کی یادگار ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر عود کر آئی۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس عادت کو چھڑانے کے لیے تین طرح کے اقدامات کیے تھے: ۱۔ وہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والوں کو بدنی سزا بھی دیتے تھے۔ ۲۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنا بھی حقیقتاً ایک سزا تھی جسے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نافذ کر دیا۔ ۳۔ جب لوگوں نے اپنی عادت پر کنٹرول کرنے کی بجائے حلالہ کی باتیں شروع کر دیں تو آپ نے حلالہ نکالنے اور نکلوانے والے دونوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کر دی۔[2] بذریعہ ڈاک طلاق بھیجنا آج کل یہ دستور چل نکلا ہے کہ پہلے بیوی کو میکے بھیج دیتے ہیں بعد میں کسی وقت بذریعہ چٹھی تین طلاق تحریری لکھ کر ڈاک میں بھیج دیتے ہیں یہ نہایت ہی غلط طریقہ ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ۱۔ ایک وقت کی تین طلاق معصیت، کبیرہ گناہ اور بدعت ہے۔ ۲۔ دوران عدت مطلقہ کا نان و نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتی ہے اور مطلقہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے جس سے یہ رجوع کا حق رکھتا ہے جسے وہ ضائع کر دیتا ہے۔ ۳۔ عدت کے دوران عورت کو اپنے پاس رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ شاید حالات سازگار ہو جائیں ۔ ۴۔ عدت گزر جانے پر عورت کی رخصتی کے وقت دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے۔(الطلاق: ۲)[3] ﴿وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْ ہُنَّ شَیْئًا﴾ یعنی مہر، زیور اور وہ کپڑے وغیرہ جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہے ان میں سے کوئی چیز بھی اسے واپس مانگنے کا حق نہیں ۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے جیسا کہ آگے آیت ۲۴۱ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔[4] زوجین کا باہمی سمجھوتا اگر میاں بیوی میں ناچاقی کی صورت بیدار ہو جائے یا خدشہ ہو اور وہ سمجھیں کہ حسن معاشرت کے متعلق
Flag Counter