Maktaba Wahhabi

87 - 849
زیادہ اللہ سے ڈرنے والا تمسب سے زیادہ تقویٰ کی بات کو جاننے والا میں ہوں ۔‘‘[1] روزہ کھولنے میں جلدی اور سحری دیر سے کھانا یعنی سحر سے لے کر آغاز رات، یعنی غروب آفتاب تک روزہ کا وقت ہے غروب آفتاب کے فوری بعد روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ یہود غروب آفتاب کے بعد احتیاطاً اندھیرا چھا جانے تک روزہ نہیں کھولتے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک روزہ جلد افطار کرے گی۔‘‘[2] (جب وقت ہو جائے تو روزہ کھولنے میں جلدی کرنی چاہیے اور سحری دیر سے کھانا چاہیے) اعتکاف کے احکامات اس آیت سے معلوم ہوا اعتکاف ہر مسجد میں ہو سکتا ہے اور صرف مسجد میں ہی ہو سکتا ہے۔ (عورتیں بھی مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھیں گی)۔ رمضان میں بھی ہو سکتا ہے اور غیر رمضان میں بھی۔ مگر رمضان میں چونکہ دیگر مہینوں کی نسبت زیادہ ثواب ملتا ہے اور رمضان میں اعتکاف فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا اسی کی زیادہ اہمیت ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف میں گزارا جائے تاہم یہ کم وقت حتیٰ کہ ایک دن کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔[3] سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’ جو شخص مسجد میں اعتکاف بیٹھا ہو خواہ رمضان میں ہو یا دوسرے مہینوں میں اس پر دن کے وقت یا رات کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے۔‘‘ علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اعتکاف والا اگر کسی ضروری حاجت کے لیے گھر جائے مثلاً پیشاب، پاخانہ، کھانا کھانے کے لیے تو اس کام سے فارغ ہوتے ہی مسجد چلا آئے وہاں ٹھہرنا جائز نہیں نہ اپنی بیوی سے بوس و کنار وغیرہ جائز ہے، بیمار کی بیمار پرسی کے لیے جانا بھی ناجائز ہے، ہاں جاتے جاتے پوچھ لے تو یہ اور بات ہے۔[4] آیت میں مباشرت سے جماع اور اس کے اسباب بوس و کنارہ وغیرہ مراد ہیں ۔ ورنہ کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ یہ سب باتیں جائز ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں اپنا سر میری طرف جھکا دیا کرتے تھے، میں آپ کے سر میں کنگھی کر دیا کرتی تھی، حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی۔آپ اعتکاف کے دنوں میں ضروری حاجت کے رفع کے سوا اور وقت گھر تشریف نہیں لاتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :’’ اعتکاف کی حالت میں چلتے چلتے ہی گھر کے بیمار کی بیمار پرسی کر لیا کرتی ہوں ۔‘‘[5]
Flag Counter