﴿ الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾ ’’زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے، یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت، اس سے نکاح نہیں کرتامگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کر دیا گیا ہے۔‘‘ زنا کے دوسرے فریق کی تفتیش نہ کی جائے ۱۲۔ زنا کا ایک فریق اگر اپنے گناہ کا اعتراف کر لے تو قاضی اسے یہ نہیں پوچھے گا کہ دوسرا فریق کون ہے؟ اگر اس پر پردہ پڑا ہے تو یہی بات اسلام کے مطابق ہے نیز اسلامی قانون لوگوں کو سزا دینے کے لیے بے چین نہیں ہے۔ ۱۳۔ اقرار کرنے والا اگر دوسرے فریق کا پتہ بتاتا ہے اگر وہ اعتراف کر لے تو اس پر حد جاری ہوگی اور اگر وہ انکار کر دے تو وہ بچ جائے گا البتہ بعض علماء کے نزدیک پتہ بتانے والے پر قذف کی حد بھی جاری ہوگی لیکن یہ بات قاضی کی تحقیق اور صوابدید پر منحصر ہے۔ ۱۴۔ اگر رجم کا مجرم اپنے اقرار کے بعد اقرار سے پھر جائے یا بھاگ کھڑا ہو تو اسے مزید سزا نہیں دی جائے گی۔[1] تفسیر:… اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ سو کوڑے کی سزا صرف کنوارے مرد اور عورت کے لیے ہے۔[2] بدکار مرد و عورت سے نکاح جن لوگوں کی بدکاری جانی بوجھی ہو ان کو نکاح کے لیے منتخب کرنا ایک گناہ ہے جس سے اہل ایمان کو پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بدکاروں کی ہمت افزائی ہوتی ہے حالانکہ شریعت انہیں معاشرے کا ایک مکروہ اور قابل نفرت عنصر قرار دینا چاہتی ہے۔ اسی طرح اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ زانی مسلم کا نکاح مشرک عورت سے اور زانیہ مسلمہ کا نکاح مشرک مرد سے صحیح ہے آیت منسا دراصل یہ بتاتا ہے کہ زنا ایسا سخت قبیح فعل ہے کہ جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ مسلم معاشرے پاک اور صالح لوگوں سے اس کا رشتہ ہو |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |