Maktaba Wahhabi

359 - 849
آخر دن تک کفایت کروں گا۔[1] حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ کا معاملہ آ پڑتا تو آپ نماز شروع کر دیتے۔[2] یقین کا مفہوم یقین سے مراد اس آخری آیت میں موت ہے اس کی دلیل سورہ مدثر کی وہ آیتیں ہیں جن میں بیان ہے کہ جہنمی اپنی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہیں گے ہم نمازی نہ تھے۔ مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ باتیں بنایا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ موت آ گئی۔ (المدثر: ۴۳-۴۷) یہاں بھی موت کی جگہ لفظ یقین آیا ہے۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ نماز وغیرہ عبادات انسان پر فرض ہیں جب تک کہ اس کی عقل باقی رہے اور ہوش و حواس ثابت ہوں جیسی اس کی حالت اسی کے مطابق نماز ادا کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: کھڑے ہو کر نماز ادا کر اگر نہ ہو سکے تو بیٹھ کر نہ ہو سکے تو لیٹ کر۔[3] بدمذہبوں نے اس سے اپنے مطلب کی بات گھڑ لی ہے کہ جب تک انسان مرتبہ کمال تک نہ پہنچا ہو اس پر عبادت فرض رہتی ہے لیکن جب معرفت کی منزلیں طے کر چکا تو عبادت کی تکلیف ساقط ہو جاتی ہے یہ سراسر کفر، ضلالت اور جہالت ہے۔ یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ انبیا علیہم السلام خصوصاً سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب معرفت کے تمام درجے طے کر چکے تھے اور دین کے علم و عرفان میں سب دنیا سے کامل تھے۔ رب کی ذات اور صفات کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے باوجود اس کے کہ سب سے زیادہ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور رب کی اطاعت میں تمام دنیا سے زیادہ مشغول رہتے تھے اور دنیا کے آخری دم تک اسی میں لگے رہے پس ثابت ہے کہ یہاں یقین سے مراد موت ہے تمام مفسرین صحابہ و تابعین وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔ و الحمد للہ۔[4]
Flag Counter