Maktaba Wahhabi

508 - 849
یہی جواب دیا پھر چوتھی بار آپ نے جواب دیا تیرا باپ۔[1] حمل ورضاعت کی مدت ﴿وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰـثُوْنَ شَہْرًا﴾ یعنی حمل کی ابتداء سے لے کر دودھ چھڑانے تک کی کل مدت یہ (تیس مہینے کی) مدت ہے۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے کیونکہ رضاعت کی مدت دو سال ہے یعنی کامل دودھ پلائی کی۔ جس طرح کہ فرمان باری ہے ﴿حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ﴾ (البقرۃ: ۲۳۳) ’’پورے دو سال (رضاعت کی مدت ہے) اس کے لیے جو رضاعت مکمل کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘ اس آیت میں اللہ پاک نے حمل کی کم از کم اور رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت بیان فرمائی ہے۔[2] (لقمان: ۱۳، البقرۃ: ۲۳۳ اور یہ آیت) ان سب آیات کو سامنے رکھنے سے درج ذیل مسائل کا پتا چلتا ہے: ۱۔ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے اس میں کمی ہو سکتی ہے زیادتی نہیں ، لہٰذا اگر کسی نے دوسال سے زیادہ عمر میں کسی عورت کا دودھ پی لیا ہو تو اس پر احکام رضاعت کا اطلاق نہ ہوگا، یعنی وہ احکام جن کا نکاح سے تعلق ہے۔ ۲۔ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے چھ ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے تو وہ موجودہ خاوند کا نہیں بلکہ کسی اور مرد کا بچہ ہوگا زیادہ واضح الفاظ میں وہ ولد الزنا ہوگا اور اس کا وراثت سے بھی کچھ تعلق نہ ہوگا اور بچے کی ماں کو زنا کی حد پڑ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ تحقیقات کے مطابق حمل کی کم از کم مدت ۲۸ ہفتے قرار دی گئی ہے اگر یہ تحقیق صحیح ہو تو بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے اس مسئلہ کے ہر دو پہلوؤں سے نزاکت اور اہمیت کے پیش نظر اس مدت میں انتہائی سے کام لیتے ہوئے چھ ماہ کی مدت قرار دی ہے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو تو والد یا عورت کا خاوند اس کے نسب سے انکار کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ ۳۔ رضاعت کی مدت کی بہتر صورت یہ ہے کہ اگر بچہ چھ ماہ بعد پیدا ہو تو رضاعت کی مدت پورے دو سال یا چوبیس ماہ قرار دی جائے اگر سات ماہ بعد پیدا ہوا تو ۲۳، ماہ آٹھ ماہ بعد پیدا ہوا تو ۲۲ ماہ اور نوماہ بعد پیدا ہوا تو ۲۱ ماہ قرار دی جائے۔ ۴۔ مدت کا شمار قمری مہینوں کے حساب سے ہوگا شمسی مہینوں سے نہیں ۔[3]
Flag Counter