سورۃ الکہف اس سورت کا نام پہلے رکوع کی دسویں آیت ﴿اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَہْفِ﴾ سے ماخوذ ہے اس نام کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس میں کہف کا لفظ آیا ہے۔ موضوع اور مضمون یہ سورۃ مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے، اصحاب کہف کون تھے؟ قصہ خضر کی حقیقت کیا ہے؟ اور ذوالقرنین کا قصہ کیا ہے۔ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا اس لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے ان کا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واقعی کوئی غیبی علم ہے یا نہیں ؟ مگر اللہ تعالیٰ نے یہی نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورت حال پر چسپاں کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر واسلام کے درمیان در پیش تھی۔ اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو انہی پر پوری طرح پلٹ دینے کے بعد خاتمہ کلام میں پھر انہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں ، یعنی یہ کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حضور اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہوگی تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔[1] فضیلت مسند احمد میں ہے ایک صحابی نے اس سورت کی تلاوت شروع کی ان کے گھر میں ایک جانور تھا اس نے اچھلنا بدکنا شروع کر دیا، صحابی نے جو غور سے دیکھا تو انہیں سائبان کی طرح ایک بادل نظر پڑا جس نے ان |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |