Maktaba Wahhabi

184 - 849
مونث کو عام ہیں جبکہ مونث حمل اور حیض کے ساتھ خاص ہے۔[1] بلوغت کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ۔ گرم ممالک میں لڑکے لڑکیاں جلدی بالغ ہو جاتے ہیں جبکہ سرد ممالک میں دیر سے ہوتے ہیں البتہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کچھ ایسی علامات ضروری ہیں جو ان کے بالغ ہونے کا پتا دیتی ہیں ۔ مثلاً لڑکوں کو احتلام ہونا اور عورتوں کو حیض آنا اور چھاتیوں کا ابھر آنا خاص علامات ہیں ۔[2] قانون پاکستان اور بلوغت کی عمر واضح رہے کہ پاکستان میں نکاح نامہ پر بلوغت کی جو عمر درج ہے کہ لڑکی ۱۶ سال سے اور لڑکا ۱۸ سال سے کم نہ ہو۔ یہ حد بندی غیر شرعی ہے اور بالغ ہونے کے بعد ہی نکاح کی شرط لگانا بھی غیر شرعی ہے۔ نیز اس میں نکاح ثانی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت حاصل کرنے کی شرط بھی غیر شرعی ہے۔ اسی طرح عورت کے حق طلاق کی شق بھی غیر شرعی ہے۔[3] مال حوالے کرنے کی شرطیں مال ان کے حوالے کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں : ایک بلوغ اور دوسرے رشد۔ یعنی مال کے صحیح استعمال کی اہلیت پہلی شرط کے متعلق تو فقہائے امت میں اتفاق ہے، دوسری شرط کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ اگر سن بلوغ کو پہنچنے پر یتیم میں رشد نہ پایا جائے تو ولی یتیم کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور انتظار کرنا چاہیے پھر خواہ رشد پایا جائے یا نہ پایا جائے اس کا مال اس کے حوالے کر دینا چاہیے اور امام ابو یوسف، امام محمد اور امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ مال حوالے کیے جانے کے لیے بہرحال رشد کا پایا جانا ناگزیر ہے غالباً موخر الذکر حضرات کی رائے کے مطابق یہ بات زیادہ قرین صواب ہو گی کہ اس معاملے میں قاضی شرع کی طرف رجوع کیا جائے گا اور اگر قاضی پر ثابت ہو جائے کہ اس میں رشد نہیں پایا جاتا تو وہ اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے خود کوئی مناسب انتظام کر دے۔[4] کفیل کا یتیمہ کے مال سے کھانا پھر فرماتا ہے: جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہو گئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہیے کہ ان کے مال انہیں دے دیں ۔ بغیر ضروری حاجت کے صرف اس ڈر سے کہ یہ بڑے ہوتے ہی اپنا مال ہم سے لے لیں گے تو ہم اس سے پہلے ان کے مال کو ختم کر دیں ۔ ان کا مال نہ کھاؤ جسے ضرورت نہ ہو، یعنی وہ خود امیر اور کھاتا پیتا ہو تو اسے چاہیے کہ ان کے مال میں سے کچھ بھی نہ لے۔ مردار اور
Flag Counter