Maktaba Wahhabi

415 - 849
شہادت کے علاوہ جرم زنا کس چیز سے ثابت ہو سکتا ہے؟ شہادت کے سوا دوسری چیز جس سے جرم زنا ثابت ہو سکتا ہے وہ مجرم کا اپنا اقرار ہے۔ یہ اقرار صاف اور صریح الفاظ میں فعل زنا کے ارتکاب کا ہونا چاہیے، یعنی اسے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے ایک ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی کالمیل فی المکحلۃ یہ فعل کیا ہے اور عدالت کو پوری طرح اطمینان کر لینا چاہیے کہ مجرم کسی خارجی دباؤ کے بغیر بطور خود بحالت ہوش وحواس یہ اقرار کر رہا ہے بعض فقہاء کہتے ہیں ایک اقرار کافی نہیں ہے بلکہ مجرم کو چار مرتبہ الگ الگ اقرار کرنا چاہیے۔ اور بعض کہتے ہیں ایک اقرار ہی کافی ہے۔ پھر ایسی صورت میں جبکہ کسی دوسرے تائیدی ثبوت کے بغیر صرف مجرم کے اپنے اقرار پر ہی فیصلہ کیا گیا ہو اگر عین سزا کے دوران میں بھی مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو سزا کو روک دینا چاہیے خواہ یہ بات صریحاً ہی کیوں نہ ظاہر ہو رہی ہو کہ وہ مار کی تکلیف سے بچنے کے لیے اقرار سے رجوع کر رہا ہے۔ [1] رجم کے واقعات سورئہ نور کے نزول کے بعد کے ہیں [منکرین حدیث رجم کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سورۃ النور کی مذکورہ آیت میں فقط کوڑوں کا ذکر ہے لہٰذا زنا کی فقط یہی سزا ہے اور کچھ حدیث کو ماننے والے بھی ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں کہ شاید حدیث میں ملنے والی یہ سزائیں اس آیت کے نزول سے پہلے کی ہوں ان کے لیے یہ وضاحت کی جا رہی ہے۔ ] (ابن نواب) ۱۔ غامدیہ عورت کا رجم ہوا، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے پتھر مارا جس سے خون کے چند چھینٹے سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر پڑ گئے تو آپ نے اس عورت کو گالی دی اس پر آپ نے سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ کو سخت تنبیہ کی اور سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ ۸ہجری کے درمیانی عرصہ میں اسلام لائے تھے صلح حدیبیہ سے واپسی پر سورئہ فتح نازل ہوئی جس کا ترتیب نزول کے لحاظ سے نمبر ۱۱۱ ہے جبکہ سورۃ النور کا نمبر ۱۰۲ ہے لہٰذا غامد یہ عورت والا واقعہ سورۃ نور کے نزول کے بہت بعد کا ہے۔ ۲۔ عسیف یا مزدور لڑکے کی پیشی کے وقت ابوہریرہ خود وہاں موجود تھے اور وہ خود ہی اس روایت کے راوی بھی ہیں اور فرماتے ہیں کہ کنا عند النبی صلي الله عليه وسلم،[2] اور اس واقعہ میں اس مزدور کی مالکہ کو رجم کیا گیا، اور سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جنگ خیبر ۷ہجری کے موقع پر آپ کے پاس حاضر ہو کر ایمان لائے جبکہ سورۃ نور اس سے بہت پہلے نازل ہو چکی تھی۔ ۳۔ یہودی اور یہودن کے رجم کے وقت سیّدنا عبداللہ بن حارث وہاں موجود تھے وہ خود کہتے ہیں کہ
Flag Counter