سورۃ بنی اسرائیل آیت ۴ کے فقرے ﴿وَ قَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ﴾ سے ماخوذ ہے مگر اس میں موضوعِ بحث بنی اسرائیل ہے بلکہ یہ نام بھی اکثر قرآنی سورتوں کی طرح صرف علامت کے طور پر رکھا گیا ہے۔ زمانہ نزول پہلی ہی آیت اس بات کی نشان دہی کر دیتی ہے کہ یہ سورت معراج کے موقع پر نازل ہوئی ہے معراج کا واقعہ حدیث اور سیرت کی اکثر روایات ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس لیے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں ہے جو مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں ۔ اب وہ وقت قریب آ لگا تھا جب آپ کو مکے سے مدینے کی طرف منتقل ہو جانے اور منتشر مسلمانوں کو سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کر دینے کا موقع ملنے والا تھا۔ ان حالات میں معراج پیش آئی اور واپسی پر پیغام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو سنایا۔ موضوع اور مضمون اس سورت میں تنبیہ تفہیم اور تعلیم تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کر دی گئی ہیں ۔ یہ تنبیہ کفار مکہ کو کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو۔ نیز ضمناً بنی اسرائیل کو بھی جو ہجرت کے بعد عنقریب زبان وحی کے مخاطب ہونے والے تھے یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ پہلے جو سزائیں تمہیں مل چکیں ان سے عبرت حاصل کرو اور اب جو موقع تمہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے مل رہا ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ یہ آخری موقع بھی اگر تم نے کھو دیا تو دردناک انجام سے دوچار ہو گے۔ تفہیم کے پہلو میں بڑے دل نشین انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ انسانی سعادت و شقاوت اور فلاح و خسران کا مدار دراصل کن چیزوں پر ہے۔ تعلیم کے پہلو میں اخلاق اور تمدن کے وہ بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر زندگی کے نظام کو قائم کرنا دعوت محمدی کے پیش نظر تھا یہ گویا اسلام کا منشور تھا جو اسلامی ریاست کے قیام سے ایک سال پہلے |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |