﴿ وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٣١﴾ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ ﴾ ’’اور اپنی آنکھیں ان چیزوں کی طرف ہرگز نہ اٹھائیے جو ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو دنیا کی زندگی کی زینت کے طور پر برتنے کے لیے دی ہیں ، تاکہ ہم انھیں اس میں آزمائیں اور آپ کے رب کا دیا ہوا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور اس پر خوب پابند رہیے، ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی آپ کو رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔‘‘ رزق کا وسیع تر مفہوم تفسیر:… یہاں رزق سے مراد صرف کھانے پینے کی چیزیں ہی نہیں بلکہ رزق کا لفظ اپنے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس لفظ کا اطلاق ہر اس خدا داد نعمت پر ہوتا ہے جو جسمانی یا روحانی اعتبار سے انسان کی تربیت کا باعث بن سکے۔[1] شکر یا تکبر؟ ان کفار کی دنیوی زینت اور ان کی ٹیپ ٹاپ کو تو حسرت بھری نگاہوں سے نہ دیکھ یہ تو ذرا اسی دیر کی چیزیں ہیں یہ صرف ان کی آزمائش کے لیے انہیں یہاں ملی ہیں کہ دیکھیں شکر و تواضع کرنے میں یا ناشکری وتکبر کرتے ہیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے ایلاء کیا تھا اور ایک بالاخانے میں مقیم تھے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ ایک کھردرے بوریے پر لیٹے ہیں چمڑے کا ایک ٹکڑا ایک طرف رکھا تھا اور کچھ مشکیں لٹک رہی تھیں یہ بے سرو سامانی کی حالت دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیوں رو دئیے؟ جواب دیا، حضور! قیصر وکسریٰ کس قدر عیش وعشرت میں ہیں اور باوجود آپ ساری مخلوق میں سے اللہ کے برگزیدہ ہونے کے کس حالت میں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اے خطاب کے بیٹے! کیا اب تک تم شک میں ہی ہو ان لوگوں کو اچھائیوں کا بدلہ دنیا میں ہی جلدی مل گیا۔[2] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |