سورۃ مریم اس سورۃ کا نام مریم اس لیے ہے کہ اس میں سیّدہ مریم رضی اللہ عنہا کے حالات کا تفصیلی ذکر آیا ہے اور یہی ایک خاتون ہے جن کا قرآن میں نام مذکور ہے اور کم از کم تین مقامات پر ان کا نام آیا ہے۔[1] زمانہ نزول اس کا زمانہ نزول ہجرت حبشہ سے پہلے کا ہے، معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مہاجرین اسلام جب نجاشی کے دربار میں بلائے گئے اس وقت سیّدنا جعفر نے یہی سورت بھرے دربار میں تلاوت کی تھی۔[2] موضوع ومضمون اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر جب ہم اس سورت کو دیکھتے ہیں تو اس میں اولین بات نمایاں ہو کر ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ اگرچہ مسلمان ایک مظلوم پناہ گزین گروہ کی حیثیت سے اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا رہے تھے مگر اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو دین کے معاملے میں ذرہ برابر مداہنت کرنے کی تعلیم نہ دی بلکہ چلتے وقت زاد راہ کے طور پر یہ سورت ان کے ساتھ کی تاکہ عیسائیوں کے ملک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بالکل صحیح حیثیت پیش کریں اور ان کے ابن اللہ ہونے کا صاف صاف انکار کر دیں ۔ پہلے دو رکوع میں یحییٰ و عیسیٰ کا قصہ سنانے کے بعد پھر تیسرے رکوع میں حالات زمانہ کی مناسبت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ سنایا گیا ہے کیونکہ ایسے ہی حالات میں وہ بھی اپنے باپ اور خاندان اور اہل ملک کے ظلم سے تنگ آکر وطن سے نکل کھڑے ہوئے تھے اس سے ایک طرف کفار مکہ کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ آج ہجرت کرنے والے مسلمان ابراہیم علیہ السلام کی پوزیشن میں ہیں اور تم لوگ ان ظالموں کی پوزیشن میں ہو، جنہوں نے تمہارے باپ اور پیشوا ابراہیم کو گھر سے نکالا تھا، دوسری طرف مہاجرین کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام وطن سے نکل کر تباہ نہ ہوئے بلکہ اور زیادہ سر بلند ہوگئے ایسا ہی نیک انجام تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ اس کے بعد چوتھے رکوع میں دوسرے انبیاء کا ذکر کیا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمام |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |