جس طرح کہ مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے۔[1] اس آیت کی رُو سے ایک مرد ایک رشتہ نکاح میں اپنی بیوی سے حد سے حد دو ہی مرتبہ طلاق رجعی کا حق استعمال کر سکتا ہے۔ جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رجوع کر چکا ہو وہ اپنی عمر میں اس کو تیسری بار جب کبھی بھی طلاق دے گا عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی۔[2] طلاق کا سنت طریقہ طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریق یہ ہے کہ مرد حالت طہر میں (چھونے سے قبل) عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے۔ اس صورت کو فقہی اصطلاح میں احسن کہتے ہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے اور دوسرے میں دوسری اور تیسرے میں تیسری دے دے اس صورت کو حسن کہتے ہیں ۔ پہلی صورت کا فائدہ یہ ہے کہ اگر عدت گزر جانے کے بعد بھی میاں بیوی آپس میں مل بیٹھنے پر رضا مند ہوں تو تجدید نکاح سے یہ صورت ممکن ہے۔[3] حالت حمل میں بھی طلاق دی جا سکتی ہے۔ بخاری کی حدیث (۵۲۵۱) کے الفاظ ایک روایت کے مطابق یوں ہیں : ((ثُمَّ لِیُطَلِّقْہَا طَاہِرًا اَوْ حَامِلًا)) [4] ’’پھر وہ اسے طلاق دے (حیض وغیرہ سے) وہ پاک ہو یا حاملہ ہو۔‘‘ ایک مجلس میں تین طلاقیں تیسری صورت یہ ہے کہ یک بارگی تینوں طلاقیں دے دے۔ یہ صورت بدعی طلاق کہلاتی ہے اور ایسا کرنا کبیرہ گناہ ہے۔[5] اب پاکستان میں بھی شرعی کونسل نے (مؤرخہ۲۴جنوری۲۰۱۵ء) قانون پاس کر لیا ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں نہیں دی جا سکتیں ۔ اگرچہ بعض ائمہ فقہاء کے مطابق اس صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں مگر سنت کی رو سے یہ ایک ہی طلاق واقع ہو گی۔ حدیث میں ہے: سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک یک بارگی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں نے ایک ایسے کام میں جلدی کرنا شروع کر دی جس میں ان کے لیے مہلت و نرمی تھی تو اب ہم کیوں نہ ان پر تین طلاقیں ہی نافذ کر دیں ، چنانچہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا قانون نافذ کر دیا۔[6] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |