خرچ ہوگا جبکہ سیّدنا ابن عباس، سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما ، مالک شافعی اور ابوحنیفہ رحمہما اللہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اس عورت کو جو مرنے والے کی جانب سے حصہ ملنا ہے اسی سے اس پر خرچ کیا جائے گا احادیث کی ادلہ کی رو سے یہی بات حق ہے۔[1] اگر بیوہ ہے تو اس (حاملہ) کا سکنیٰ تو مرد کے لواحقین کے ذمہ ہوگا اور وہ عدت اپنے خاوند کے گھر گزارے گی کیونکہ اب وہ وراثت کی حقدار بن گئی ہے۔[2] طلاق کے بعد بچے کو دودھ پلانے کے متعلق مسائل اس آیت (۶) اور اگلی آیت سے مندرجہ ذیل باتیں مستفاد ہوتی ہیں : ۱۔ عورت اپنے دودھ کی خود مالک ہے اور وہ طلاق دینے والے خاوند سے بھی اسی طرح اجرت لے سکتی ہے جس طرح دوسروں سے۔ ۲۔ قانونی طور پر بچہ باپ کا ہوتا ہے اگر بچہ ماں کا ہوتا تو اجرت لینے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ ۳۔ اگر ماں بھی وہی اجرت مانگے تو دوسری عورتیں مانگتی ہیں تو ماں دودھ پلانے کی زیادہ حقدار ہے۔ ۴۔ اگر ماں کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے دودھ پلانے سے انکار کر دے یا اجرت اتنی زیادہ مانگے جو اس کے خاوند کی استطاعت یا معروف رواج سے زیادہ ہو تو باپ کسی دوسری عورت سے بھی دودھ پلوانے کی خدمت لے سکتا ہے۔ ۵۔ طلاق کے بعد اگر فریقین میں شکر رنجی باقی رہ گئی ہو تو تب بھی بچے کی تربیت کے سلسلے میں اور باپ کو بچہ کی اور ایک دوسرے کی بھلائی ہی سوچنا چاہیے باپ محض ماں کو ستانے تنگ کرنے اور اس کی نظروں سے بچہ غائب کرنے کی خاطر دوسری عورت سے دودھ نہ پلوائے یا ماں کو بہت کم معاوضہ دے یا سرے سے کچھ دینے پر آمادہ ہی نہ ہو اور نہ ہی ماں اتنا خرچ طلب کرے کہ باپ کسی دوسری عورت سے پلوانے پر مجبور ہو جائے۔ ۶۔ ہمارے ہاں یہ دستور بن چکا ہے کہ مطلق عورت اور طلاق دینے والا مرد بعد میں تازیست نہ ایک دوسرے کے سامنے ہوں اور نہ کلام کریں اور اسے غیرت کا مسئلہ بنا لیا گیا ہے بلکہ بسا اوقات مرد اور عورت کے خاندان میں بغض اور عداوت چل جاتی ہے شرعاً ان باتوں کا کوئی جواز نہیں ہے اس سلسلہ میں بالخصوص ﴿وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوفٍ﴾ کے الفاظ قابل توجہ ہیں ۔ نیز جب سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ زینب کو طلاق دے دی تو اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب کو اپنے لیے نکاح کا پیغام سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی زبانی ہی بھیجا تھا۔[3] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |