Maktaba Wahhabi

163 - 849
اپنے گناہ کی معافی چاہے تو اللہ عزوجل اس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں ۔‘‘[1] صحیح مسلم میں بروایت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : تم میں سے جو شخص کامل وضو کر کے اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ پڑھے اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس سے چاہے اندر چلا جائے۔[2] امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سنت کے مطابق وضو کرتے ہیں ، پھر فرماتے ہیں :’’ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔‘‘[3] توبہ کی اہم شرائط آیت کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ پرہیز گار لوگ دیدہ و دانستہ نہ کوئی برا کام کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں بلکہ سہواً بہ تقاضائے بشریت ان سے ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں اور جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور معافی مانگنے لگتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ یقینا معاف بھی کر دیتا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اگر اس برے کام یا غلطی کا اثر صرف اپنی ذات تک محدود ہو تو پھر اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے وہ یقینا معاف فرما دے گا لیکن اگر اس کا اثر دوسروں کے حقوق پر پڑتا ہے تو اس کی تلافی کرنا یا اس شخص سے قصور معاف کروانا ضروری ہے اور یہ استغفار کی ایک اہم شرط ہے۔ نیز گناہ پر اصرار کرنا یا استغفار کرنے کے بعد وہی گناہ پھر کرتے جانا اصل گناہ سے بڑا گناہ ہے اور جو لوگ یہ کام کریں وہ یقینا متقی نہیں ہوتے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ایک گناہ سرزد ہو گیا تو اس کی معافی مانگ لی پھر دوسرا ہو گیا اس کی بھی اللہ سے معافی مانگ لی پھر کوئی اور ہو گیا اس کی بھی معافی مانگ لی اس طرح اگر دن میں ستر بار بھی اللہ سے مافی مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے اور اللہ تعالیٰ خطاکار کے معافی مانگنے پر صرف معاف ہی نہیں فرماتا بلکہ خوش بھی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ گناہ کے بعد اس کی معافی نہ مانگنا یہ بھی اصرار کے مترادف ہے۔[4]
Flag Counter