ذرا غور کیجئے اس مقام پر ذرا ٹھہر کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ قرآن کا یہ حکم اور یہ مقصد حکم جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر دیا ہے اسلامی قانون معاشرت کی کیا روح ظاہر کر رہا ہے اس سے پہلے سورۃ نور آیت ۳۱ میں یہ ہدایت گزر چکی ہے۔ یہاں چادر اوڑھنے کا جو حکم ارشاد ہوا ہے اس کا منشاء اجنبیوں سے زینت چھپانا ہی ہے اور ظاہر ہے یہ منشاء اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جبکہ چادر بجائے خود سادہ ہو ورنہ ایک مزین اور جاذب نظر کپڑا لپیٹ لینے سے تو یہ منشاء الٹا اور فوت ہو جائے گا۔ اس پر مزید کہ اللہ تعالیٰ چادر لپیٹ کر زینت چھپانے کا حکم ہی نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ چادر کا ایک حصہ عورتیں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ یہ ہدایت ان عورتوں کو دی جا رہی ہے جو مردوں کی چھیڑ چھاڑ اور ان کی نظر بازی اور ان کے شہوانی التفات سے لطف اندوز ہونے کی بجائے اس سے تکلیف محسوس کرتی ہیں جو معاشرے میں اپنے آپ کو آبرو باختہ شمع انجمن قسم کی عورتوں میں شمار نہیں کرانا چاہتیں بلکہ عفت مآب چراغ خانہ ہونے کی حیثیت سے معروف ہونا چاہتی ہیں ایسی شریف اور نیک خاتون سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم فی الواقع اس حیثیت سے معروف ہونا چاہتی ہو اور مردوں کی ہوس ناک توجہات حقیقت میں تمہارے لیے موجب لذت نہیں بلکہ موجب اذیت ہیں تو پھر اس کے لیے مناسب طریقہ یہ نہیں ہے کہ تم خوب بناؤ سنگھار کر کے پہلی رات کی دلہن بن کر گھروں سے نکلو اور دیکھنے والوں کی حریص نگاہوں کے سامنے اپنا حسن اچھی طرح نکھار نکھار کر پیش کرو بلکہ اس غرض کے لیے تو مناسب ترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم ایک سادہ چادر میں اپنی ساری آرائش وزیبائش چھپا کر نکلو، اپنے چہرے پر گھونگٹ ڈالو اور اس طرح چلو کہ زیور کی جھنکار بھی لوگوں کو تمہاری طرف متوجہ نہ کرے۔ انسان کا قول اس کی نیت متعین نہیں کرتا بلکہ اس کی اصل نیت وہ ہوتی ہے جو اس کے عمل کی شکل اختیار کرتی ہے لہٰذا جو عورت جاذبِ نظر بن کر غیر مردوں کے سامنے جاتی ہے اس کا یہ عمل خود ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کے پیچھے یا محرکات کام کر رہے ہیں اسی لیے فتنے کے طالب لوگ اس سے وہی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو ایسی عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہیں قرآن عورتوں سے کہتا ہے کہ تم بیک وقت چراغ خانہ اور شمع انجمن نہیں بن سکتی ہو۔[1] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |