Maktaba Wahhabi

152 - 849
آیتیں اتریں ۔ اس کی قوم نے اسے کہلوا بھیجا، وہ پھر توبہ کر کے نئے سرے سے مسلمان ہو کر حاضر ہو گیا۔‘‘[1] توبہ قبول ہونے کی شرائط اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مثلاً یہود سیّدنا موسیٰ پر ایمان لائے تھے پھر سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کر کے کفر کا رویہ اختیار کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی انکار کر دیا جو ان کے کفر میں مزید اضافہ کا سبب بن گیا۔ ایسے معاندین کے حق میں توبہ قبول نہ ہو گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص ایمان لایا پھر اس کے بعد مرتد ہو گیا۔ پھر اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اسلام دشمنی میں اپنی سرگرمیاں تیز تر کر دیں تو ایسے شخص کی بھی توبہ قبول نہ ہو گی۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مرتد ہو جانے کے بعد کفر پر ڈٹا رہا اور جب موت کا وقت آ پہنچا تو توبہ کی سوجھی اس وقت بھی توبہ قبول نہ ہو گی۔ البتہ جو لوگ اپنی زندگی میں اسلام دشمنی میں سرگرم اور تقریر و تحریر کے ذریعے لوگوں میں الحاد اور باطل عقائد پھیلانے میں سرگرم رہے ہوں ، ان کی توبہ قبول ہونے کی صورت اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۶۰ بایں الفاظ بیان فرمائی: ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ أَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا﴾ یعنی ان کی توبہ کی قبولیت کے لیے تین شرطیں لازم ہیں : (۱) سچی توبہ کریں (۲) اپنے اعمال و افعال درست کر کے اپنی اصلاح کریں (۳) اور جو کچھ الحاد یا باطل عقائد وہ لوگوں میں پھیلا چکے ہیں برملا اس کی تردید بھی کریں اور اگر تحریری صورت میں گمراہی پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں تو تحریری صورت میں اس کی تلافی اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں تو ایسے لوگ ان کی بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے۔[2] کفر پر مرنے والوں کی کوئی نیکی قبول نہیں ، گو اس نے زمین بھر کر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ عبداللہ بن جدعان جو بڑا مہمان نواز، غلام آزاد کرنے والا اور کھانا پینا دینے والا شخص تھا کیا اسے اس کی یہ نیکی کام دے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں ، اس نے ساری عمر میں ایک دفعہ بھی ﴿رَبِّ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ﴾ نہیں کہا…[3] یعنی ’’اے میرے رب میری خطاؤں کو قیامت والے دن بخش۔‘‘ جس طرح اس کی خیرات نامقبول ہے اسی طرح فدیہ اور معاوضہ بھی۔ جیسے اور جگہ فرمایا: ﴿وَ لَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّ لَا تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ﴾ (البقرۃ: ۱۲۳) ’’اور نہ اس سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ اسے کوئی سفارش نفع دے گی۔‘‘
Flag Counter