Maktaba Wahhabi

313 - 849
﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٠٠﴾ إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ ﴾ ’’در گزر اختیار کر اور نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کر۔ اور اگر کبھی شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ تجھے ابھار ہی دے تو اللہ کی پناہ طلب کر، بے شک وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ یقینا جو لوگ ڈر گئے، جب انھیں شیطان کی طرف سے کوئی (برا) خیال چھوتا ہے وہ ہشیار ہو جاتے ہیں ، پھر اچانک وہ بصیرت والے ہوتے ہیں ۔‘‘ کھانے پینے میں اسراف کا نقصان بعض اطباء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مختصر سے جملے میں طب کا آدھا علم بیان فرما دیا ہے کیونکہ اکثر امراض خوراک کی زیادتی یا اس میں بے احتیاطی ہی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اسراف کا مطلب بسیار خوری بھی ہو سکتا ہے۔ وقت بے وقت کھانا اور بد پرہیزی بھی۔ یہ تو اسراف کے طبی نقصانات ہیں اور جو اخلاقی نقصانات ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہیں ۔ مثلاً جو انسان اپنے ہی کھانے پینے کی فکر رکھے گا دوسروں سے احسان کرنا تو درکنار وہ دوسروں کے جائز حقوق بھی ادا کرنے کے قابل نہ رہے گا۔ پھر مال کے ضیاع سے اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں شدت سے منع فرمایا ہے اور اس کے نتائج بڑے دُور رَس ہوتے ہیں ۔[1] قصور وار کو معاف کر دینا چاہیے تفسیر:… مجاہد کہتے ہیں کہ لوگوں کے اخلاق اور اعمال سے درگزر کرو، یعنی ان کے اعمال و اخلاق کا کھوج نہ کرو۔ عیینہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتاری ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَo﴾ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا: اس سے کیا مقصد ہوا؟ تو جبرائیل نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ جو آپ کی ذات پر کوئی زیادتی کرے آپ اس کو معاف کر دیا کریں ۔ جو آپ کو نہ دے آپ اس کو دیں جو آپ سے تعلق توڑے آپ اس سے تعلق جوڑیں ۔[2]
Flag Counter