Maktaba Wahhabi

98 - 849
حضرت اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما نے ان کا یہ کلام نقل کر کے کہا کہ حضور پھر ہمیں جماع کی بھی رخصت دی جائے۔ آپ کا چہرہ یہ سن کر متغیر ہو گیا یہاں تک کہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے خیال کیا کہ آپ ان پر ناراض ہو گئے، جب یہ بزرگ جانے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی بزرگ تحفۃً دودھ لے کر آئے آپ نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں بلایا اور وہ دودھ انہیں پلایا اب معلوم ہوا کہ وہ غصہ جاتا رہا۔[1] پس اس فرمان ’’حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو‘‘ یہ مطلب ہوا کہ جماع نہ کرو۔ اکثر علماء کا مذہب ہے کہ سوائے جماع کے مباشرت جائز ہے۔ حائضہ عورت کے ساتھ کھانا پینا، اس کے ساتھ لیٹنا، بیٹھنا وغیرہ امور بالاتفاق جائز ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ ’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھویا کرتی تھی آپ میری گود میں ٹیک لگا کر لیٹ کر قرآن مجید کی تلاوت فرماتے، حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی۔‘‘[2] نیز وہ فرماتی ہیں : ’’ میں ہڈی چوستی تھی آپ بھی اسی ہڈی کو وہیں سے منہ لگا کر چوستے تھے۔ میں پانی پیتی تھی پھر گلاس آپ کو دیتی تو آپ بھی وہیں سے منہ لگا کر اسی گلاس سے پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی۔‘‘[3] میمونہ بنت حارث ہلالیہ رضی اللہ عنہا فرمائی ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی کسی اہلیہ سے ان کی حیض کی حالت میں ملنا چاہتے تھے تو انہیں حکم دیتے تھے کہ تہبند باندھ لیں ۔‘‘[4] اگر کوئی دوران حیض مباشرت کر لے؟ حالت حیض میں جماع کی حرمت اور اس کے کرنے والے کا گنہگار ہونا یقینی امر ہے جس سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔ لیکن اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ؟ اس میں علماء کے دو اقوال ہیں : ایک تو یہ کہ کفارہ بھی ہے (اور یہی صحیح ہے)۔ چنانچہ مسند احمد اور سنن میں سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے وہ ایک دینار یا آدھا
Flag Counter