حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی ہے اور بیٹیاں حرام ہیں ۔[1] امام ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک وہ بھی جائز بیٹی کی طرح محرمات میں ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وہ محرمات سے نہیں ہے مگر درحقیقت یہ تصور ہی ذوق سلیم پر بار ہے کہ جس لڑکی کے متعلق آدمی یہ جانتا ہوں کہ وہ اسی کے نطفے سے پیدا ہوئی ہے اس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لیے جائز ہو۔[2] ۲۔ کیا عقد فاسد بھی عورت کو باپ یا بیٹے پر حرام کر دیتا ہے؟ فقہاء کا عقد کے بارے اختلاف ہے کہ جب وہ فاسد ہو تو کیا وہ تحریم کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں ؟ جس طرح کہ یہ بات فروع کی کتب میں بیان شدہ ہے۔ ابن منذر کہتے ہیں : مختلف شہروں کے علماء جن سے علم لیا جاتا ہے وہ سب متفق ہیں کہ آدمی جب کسی عورت سے نکاح فاسد کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے تو بلاشبہ وہ اس کے باپ دادا اور بیٹے پر حرام ہو جاتی ہے۔ علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ لونڈی کی خرید کا جو معاہدہ ہے وہ اسے اس کے باپ اور بیٹے پر حرام نہیں ٹھہراتا۔ سو جب وہ لونڈی خریدے پھر اسے چھوئے یا بوسہ دے تو وہ اس کے باپ اور بیٹے پر حرام ہو جائے گی مجھے علم نہیں کہ وہ اس میں اختلاف کرتے ہوں ۔ چنانچہ ان کی مانیں تو یہ تحریم لازم ٹھہرتی ہے۔[3] ۳۔ ماں سے نکاح کے بعد جماع ہو گا تو بیٹی حرام ہو گی امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ صرف خلوت اور تنہائی ہو جانے سے اس لڑکی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی اگر مباشرت کرنے اور ہاتھ لگانے سے اور شہوت سے اس کے عضو کی طرف دیکھنے سے پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو تمام کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لڑکی اس پر حرام نہ ہو گی تاوقتیکہ جماع نہ ہوا ہو۔[4] ۴۔ کیا زنا کے تعلق سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے؟ اہل علم نے وطی زنا کے بارے اختلاف کیا ہے کہ آیا وہ تحریم کا مقتضی ہے یا نہیں ؟چنانچہ اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی عورت سے زنا کرے تو اس کی وجہ سے اس پر اس سے نکاح حرام نہیں ہوتا اور ایسے ہی نہ اس پر اس کی بیوی حرام ہوتی ہے جب وہ اس کی ماں یا بیٹی سے بدکاری کرے، نیز اسے اتنا ہی کافی ہے کہ اس پر حد قائم کر دی جائے اور ایسے ہی اس بندے کے لیے، ان کے ہاں یہ بھی جائز ہے کہ اس نے جس سے زنا کیا ہے اس کی ماں یا بیٹی سے بیاہ رچا لے۔ اہل علم کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ زنا بلاشبہ تحریم کا مقتضی ہے یہ موقف عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ، شعبی، عطاء، |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |