﴿ أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ﴿٦﴾ لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّـهُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّـهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴾ ’’انھیں وہاں سے رہائش دو جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لیے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو، یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ، پھر اگر وہ تمھارے لیے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو اور آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرو اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو عنقریب اسے کوئی اور عورت دودھ پلا دے گی۔ لازم ہے کہ وسعت والا اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کر دے گا۔‘‘ مطلقہ کا خرچہ اور رہائش تفسیر:… مطلقہ عورت کی عدت کے دوران اس کی رہائش اور اس کی خوراک و پوشاک کا سارا خرچ طلاق دینے والے مرد کے ذمے ہے۔[1] جیسے تین طلاقیں ہو چکی ہیں ان بارے اہل علم کا اختلاف ہے۔ کیا ان کے لیے رہائش وخرچہ ہے یا نہیں ۔ امام احمد، اسحاق اور ابو ثور کا مذہب یہ ہے کہ نہ اسے رہائش ملے گی نہ خرچہ اور یہی بات حق بھی ہے۔[2] ﴿وَلَا تُضَآرُّوہُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْہِنَّ﴾ اللہ پاک نے رہائش وخرچہ بارے انہیں تنگ کرنے سے روک دیا ہے۔[3] حاملہ بیوہ یا مطلقہ کا خرچہ مطلقہ حاملہ کے لیے رہائش وخرچہ کے واجب ہونے بارے علماء میں کوئی اختلاف نہیں ہے، بہرحال وہ حاملہ جس کا شوہر وفات پا چکا ہو تو اس بارے علی وابن عمر وغیرہ کہتے ہیں اس پر وضع حمل تک جمیع مال میں سے |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |