Maktaba Wahhabi

170 - 849
سے ڈانٹا جاتا ہے۔[1] ﴿اَلَّا تَعُوْلُوْا﴾ یعنی یہ کہ تم ظلم نہیں کرو۔ یہ عَالَ الرَّجُلُ یَعُوْلُ سے ہے یہ تب بولا جاتا ہے جب آدمی کسی طرف مائل ہو جائے اور ظلم کا ارتکاب کرے۔[2] ﴿نِحْلَۃً﴾ نون کے ضمہ و کسرہ کے ساتھ دونوں لغتیں درست ہیں اور اس کا اصل معنی ہے عطا کرنا۔ (نَحَلْتُ فُلَانًا) بولتے ہیں جب آپ کسی کو کوئی شے دیں ۔[3] یتیموں کی نگہداشت ’’اور یتیموں کو ان کے مال دے دو۔‘‘ یعنی جب تک وہ بچے ہیں ان کے مال انہی کے مفاد پر خرچ کرو اور جب بڑے ہو جائیں تو جو اُن کا حق ہے وہ انہیں واپس کر دو۔[4] ’’اور تم بری چیز کو اچھی کے ساتھ تبدیل نہ کرو۔‘‘ یہ انہیں یتیموں کے مالوں میں جاہلی کارگزاری سے روکا جا رہا ہے، وہ لوگ یتیموں کے مالوں سے اچھا اچھا چھانٹ لیتے اور بدلے میں اپنے مالوں سے ردی ان کے حوالے کر دیتے اور اس میں کسی قسم کا حرج بھی نہ سمجھتے تھے۔[5] معاشرتی قباحتوں میں سے اللہ نے سب سے پہلے یتیموں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یتیم کی پرورش کرنا بہت بڑی نیکی ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور یتیم کا سرپرست جنت میں اس طرح ہوں گے پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیان والی انگلی ذرا کھول کر اشارہ کیا۔[6] یتیم لڑکیوں سے ناانصافی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ایک یتیم لڑکی تھی جس کے پاس مال بھی تھا اور باغ بھی۔ وہ جس کی پرورش میں تھی اس نے صرف اس کے مال کے لالچ میں بغیر اس کا پورا مہر وغیرہ مقرر کرنے کے اس سے نکاح کر لیا۔ جس پر یہ آیت اتری۔ میرا خیال ہے کہ اس باغ اور مال میں یہ لڑکی حصہ دار تھی۔[7] صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا: بھانجے یہ ذکر اس یتیم لڑکی کا ہے جو اپنے ولی کے قبضہ میں ہے اس کے مال میں شریک ہے اور اسے اس کا مال و جمال اچھا لگتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس سے نکاح کر لے لیکن جو مہر وغیرہ اور جگہ اس کو
Flag Counter