Maktaba Wahhabi

83 - 849
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ’’رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں ) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں ، تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے اور جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔ اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا اور تاکہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو، اس پر جو اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔‘‘ سفر میں روزے کا حکم تفسیر:… بعض لوگوں کا قول ہے (سفر میں ) اگر روزہ بھاری پڑتا ہو تو افطار کرنا افضل ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا اس پر سایہ کیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اسے کیا بات ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ روزے سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔[1]لیکن اگر کوئی شخص سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہے تو افضل ہے۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’رمضان المبارک میں سخت گرمی کے موسم میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے گرمی کی شدت کی وجہ سے سر پر ہاتھ رکھے پھر رہے تھے۔ ہم میں سے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے کوئی روزے سے نہ تھا۔‘‘[2] روزوں کی قضا آیا قضا روزوں میں پے درپے روزے رکھنا ضروری ہے یا جدا جدا بھی رکھ لیے جائیں تو کوئی حرج نہیں ؟ روزوں کی قضا میں پے درپے روزے رکھنا واجب نہیں ۔ الگ الگ رکھے یا ایک ساتھ رکھے اختیار ہے۔ جمہور سلف و خلف کا یہی قول ہے اور دلائل سے ثبوت بھی اسی کا ہے۔[3]
Flag Counter