Maktaba Wahhabi

687 - 849
یا دعا کرے تو اسے قبول کیا جائے گا، پھر اگر وضو کرے نماز پڑھے تو اس کی نماز مقبول ہوگی۔[1] دین کا مذاق اڑانے والیوں میں بیٹھنا سوال : دین کا مذاق اڑانے والیوں میں بیٹھنے کا کیا حکم ہے؟ جواب : سورۃ الانعام آیت ۶۸ میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں : ’’جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں تو ان کے پاس بیٹھنے سے اعراض کیجئے حتیٰ کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد آپ نہ بیٹھتے ظالم قوم کے ساتھ۔‘‘ لہٰذا ایسی بری سہیلیوں گندی محفلوں میں نہ بیٹھا جائے جہاں پردے کا مذاق اڑایا جائے، نماز پڑھنے والی کی تضحیک کی جائے وغیرہ کیونکہ یہ اسلام شعائر اسلام پر نکتہ چینی ہے، جو کسی کو خصوصاً دعویٰ اسلام کرنے والی کے لیے جائز ودرست نہیں ۔ (وباللہ التوفیق) برجوں ، علم نجوم اور ستارہ پرستی کی حقیقت سوال : کیا دورِ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے بھی ستارہ پرستی کا رواج تھا؟ جواب : ڈاکٹر محمد سلیم صاحب لکھتے ہیں : ’’ستاروں کی عبادت تو حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام کے زمانے سے ہی شروع ہوگئی تھی اور آج سے چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں عروج پر تھی تقریباً ۳۶۰۰سال پہلے (۱۶۰۰ق م) اہل بابل نے اس کو ایک فن کی شکل دینے کی ابتداء کی۔ پھر اہل یونان نے تقریباً ۲۵۰۰ سال پہلے اس شعبہ میں کافی کام کیا پھر اہل روم اور اہل سکندریہ سے ہوتے ہوئے عربوں ہندوؤں اور بدھوں کے علاقوں میں زور پکڑا اور آج ہم حامل قرآن وحدیث اس کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں ۔‘‘[2] سوال : اسلام میں ستاروں کی کیا حقیقت ہے؟ جواب : (۱) یہ آسمان کی زینت کے لیے ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃٍ نِ الْکَوَاکِبِo﴾ (الصّٰفّٰت: ۶) ’’بے شک ہم نے ہی آسمان دنیا کو ایک انوکھی زینت کے ساتھ آراستہ کیا، جو ستارے ہیں ۔ ‘‘ (۲) یہ آسمان کی حفاظت کے لیے ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃٍ نِ الْکَوَاکِبِo وَحِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍo لَا
Flag Counter