سورۃ طٰہٰ زمانہ نزول یہ سورۃ مریم کے بعد بلکہ ہجرت حبشہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور ہجرت حبشہ ۵ نبوی کو ہوئی تھی۔ نیز یہ سورۃ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے نازل ہوئی تھی عام روایت کے مطابق یہی سورت سن کر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام جاگزیں ہوا تھا، اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ۶ نبوی میں اسلام لائے تھے۔[1] موضوع ومبحث سورۃ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ قرآن تم پر کچھ اس لیے نازل نہیں ہوا کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے تم کو ایک مصیبت میں ڈال دیا جائے۔ یہ تو بس ایک نصیحت و یاددہانی ہے کہ جس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور جو اس کی پکڑ سے بچنا چاہیے وہ سن کر سیدھا ہو جائے، یہ مالک زمین وآسمان کا کلام ہے اور خدائی اس کے سوا کسی کی نہیں ہے یہ دونوں حقیقتیں اپنی جگہ اٹل ہیں خواہ کوئی مانے یا نہ مانے۔ اس تمہید کے بعد یکا یک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ چھیڑ دیا گیا ہے بظاہر یہ ایک قصے کی صورت میں سنایا گیا ہے موجودہ صورتحال کے بارے اس میں کوئی اشارہ تک نہیں ہے مگر جس ماحول میں یہ قصہ سنایا گیا ہے اس کے حالات مل جل کر یہ اور باتیں کرتا نظر آتا ہے، جو اس کے الفاظ سے نہیں بلکہ بین السطور سے ادا ہو رہی ہیں ۔ اسی طرح قصہ موسیٰ کے پیرائے میں ان تمام معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اس وقت ان کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باہمی کشمکش سے تعلق رکھتے تھے اس کے بعد ایک مختصر وعظ کیا گیا ہے کہ بہرحال یہ قرآن ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے جو تمہاری اپنی زبان میں تم کو سمجھانے کے لیے بھیجی گئی ہے اس پر کان دھرو گے اور اس سے سبق لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے نہ مانو گے تو خود برا انجام دیکھو گے۔ پھر آدم علیہ السلام کا قصہ بیان کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جس روش پر تم لوگ جا رہے ہو یہ دراصل |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |