Maktaba Wahhabi

164 - 849
﴿ وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴾ ’’اور کسی نبی کے لیے کبھی ممکن نہیں کہ وہ خیانت کرے، اور جو خیانت کرے گا قیامت کے دن لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کی، پھر ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ غل کے مختلف معانی تفسیر:… غل کا معنی دراصل ایسے خزانے سے چوری کرنا ہے جو سب کی مشترکہ ملکیت ہو، لہٰذا اس کا معنی چوری بھی ہو سکتا ہے اور خیانت بھی۔ پھر غل کا لفظ دل میں کدورت، بغض و عناد کو چھپائے رکھنے کے معنی میں بھی آتا ہے، چنانچہ اسی مناسبت سے بعض علماء نے یہ معنی بھی کیا ہے کہ نبی کی یہ شان نہیں کہ اپنی نافرمانی کرنے والوں کو معاف کر دینے کے بعد اس کے دل میں کچھ کدورت باقی رہ جائے۔[1] مشترکہ مال سے خیانت چوری مسلمانوں کے مشترکہ مال سے کوئی چیز چرانا یا اس میں خیانت کرنا (جو کہ غل کا لغوی مفہوم ہے) کتنا بڑا گناہ ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے لگائیے: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں جنگ خیبر کی غنیمت میں سونا چاندی تو ملا نہیں بس اونٹ بکریاں اور کپڑے وغیرہ ہی تھے۔ ایک شخص رفاعہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک غلام تحفتاً دیا تھا جس کا نام مدعم تھا اس کے بعد آپ وادی القریٰ کی طرف بڑھے وہاں پہنچنے پر مدعم آپ کو سواری سے اتار رہا تھا کہ اسے ایک تیر آ لگا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ لوگوں نے کہا: اسے جنت مبارک ہو۔ آپ نے فرمایا: ہرگز نہیں ، اس ذات کی قسم! جس کے دست میں میری جان ہے اس نے خیبر کے دن اموال غنیمت کی تقسیم سے پیشتر ایک کملی چرائی تھی جو آگ کے شعلے بن کر اس کے گرد لپٹ رہی ہے۔ جب لوگوں نے آپ کا یہ ارشاد سنا تو ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر حاضر ہو گیا۔ آپ نے اسے فرمایا کہ اگر تم انہیں داخل نہ کراتے تو قیامت کے دن یہ تسمے آگ بن کر تمہیں جلاتے۔[2] عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کے اونٹ کی پیٹھ سے چند بال لیتے
Flag Counter