آپ کمرہ سے باہر نکل آئیں ۔ بادشاہ نے اس شرط کو منظور کر لیا نجومی نے سوال کا جواب لکھ کر سر بمہر کر کے وزیر کے حوالے کر دیا تو بادشاہ نے اپنے معمار کو بلا کر کہا کہ میں اس کمرہ میں داخل ہوتا ہوں اس چاروں درواے مقفل کر کے چھت پھاڑ کر سیڑھی لگا کر مجھے اوپر سے نکال لینا، چنانچہ یونہی کیا گیا، باہر آکر بادشاہ نے نجومی کا جواب طلب کیا جو سب کے سامنے پڑھا گیا اس میں لکھا تھا بادشاہ کسی بھی دروازے سے نہیں بلکہ چھت پھاڑ کر نکلے گا، بادشاہ یہ جواب سن کر دم بخود رہ گیا اور نجوی اس کے عتاب سے بچ گیا۔ اب دیکھئے کہ نجومی کی پہلے سے لکھی ہوئی تحریر نے بادشاہ کو ہرگز اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ چھت پھاڑ کر باہر نکلے بلکہ وہ اس کام میں مکمل طور پر آزاد تھا بااختیار تھا بالکل یہی صورت ان مسائل کی ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے انسان جو کچھ کرتا ہے مکمل طور پر اپنے ارادے واختیار سے کرتا ہے اسی بنا پر اسے جزا وسزا ملے گی۔ رہی پیشگی لکھنے یا مشیت یا تقدیر کی بات تو یہ چیز اسے مجبور سمجھنے پر دلیل نہیں بن سکتی بلکہ یہ بات تو اللہ کے علم کی وسعت کی دلیل ہے۔[1] تقویٰ کا لباس کسے کہتے ہیں ؟ سوال : لباس تقویٰ کسے کہتے ہیں ؟ جواب : تقویٰ کے لباس کا مطلب یہ ہے کہ لباس پردہ پوش یا ساتر ہو ایسا پتلا یا شفاف نہ ہو کہ پہننے کے باوجود جسم کی سلوٹیں اور مقامات ستر سب کچھ نظر آتا رہے، دوسرا یہ کہ لباس فاخرانہ اور متکبرانہ نہ ہو، نہ دامن دراز ہو اور نہ اپنی حیثیت سے کم تر درجہ ہی کا اور گندہ ہو کیونکہ یہ سب باتیں تقویٰ کے خلاف ہیں تیسرے وہ لباس ایسا بھی نہ ہو کہ مرد عورتوں کا لباس پہن کر عورت بننے کی کوشش کرنے لگیں اور عورتیں مردوں کا سا لباس پہن کر مرد بننے کی کوشش کرنے لگیں کیونکہ اس سے ان کی اپنی اپنی جنس کی توہین ہوتی ہے اور چوتھے یہ کہ اپنا لباس ترک کر کے کسی حاکم یا سر برآوردہ قوم کا لباس استعمال نہ کریں کیونکہ سر برآوردہ قوم کی تہذیب وتمدن اور اس کا لباس اختیار کرنے سے جہاں تمہارا قومی تشخص مجروح ہوگا، وہاں یہ بات اس قوم کے مقابلہ میں تمہاری ذہنی مرعوبیت کی بھی دلیل ہوگی اور پانچویں یہ کہ مرد ریشمی لباس نہ پہنیں ۔ اور بعض علماء کے نزدیک لباس سے مراد صرف ظاہری لباس ہی نہیں بلکہ اس سے مراد رنگ ڈھنگ اور پورا طرز زندگی ہے جس میں لباس بھی شامل ہے، یعنی انسان کی ایک ایک عادت ایسی ہونی چاہیے جس سے تقویٰ کا رنگ ٹپکتا ہو ان کے نزدیک لباس کا لفظ مجازی معنوں میں ہے جیسے ’’مذہبی تقدس کا پردہ‘‘ میں پردہ کا |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |