Maktaba Wahhabi

142 - 849
﴿لِّلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّـهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ’’اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے اور اگر تم اسے ظاہر کرو جو تمھار ے دلوں میں ہے، یا اسے چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا، پھر جسے چاہے گابخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ کیا دلی خیالات پر بھی گرفت ہو گی؟ تفسیر:… جب یہ آیت اتری تو صحابہ بہت پریشان ہوئے کہ چھوٹی بڑی تمام چیزوں کا حساب ہو گا اپنے ایمان کی زیادتی اور یقین کی مضبوطی کی وجہ سے وہ کانپ اٹھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر گھٹنوں کے بل گر پڑے اور کہنے لگے حضرت نماز روزہ جہاد صدقہ وغیرہ کا ہمیں حکم ہوا ہے وہ ہماری طاقت میں تھا ہم نے حتی المقدور کیا لیکن اب جو یہ آیت اتری ہے اسے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا تم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا تم کو چاہیے کہ یوں کہو ہم نے سنا اور مانا۔ اے اللہ! ہم تیری بخشش چاہتے ہیں ہمارے رب ہمیں تو تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے تسلیم کر لیا اور زبانوں پر یہ کلمات جاری ہو گئے تو آیت ﴿اٰمَنَ الرَّسُوْلُ … الخ﴾ اتری اور اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو دور کر دیا اور آیت ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ﴾ نازل ہوئی۔[1] صحیح مسلم میں یہ حدیث ہے، اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر تکلیف ہٹا کر آیت ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ﴾ اتاری۔ [2] بخاری و مسلم میں ہے، جب بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا یہ بندہ بدی کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رکے رہو جب تک کر نہ لے اس کے نامۂ اعمال میں نہ لکھو اگر کرے تو ایک لکھنا اور اگر چھوڑ دے تو ایک نیکی لکھ لینا کیونکہ مجھ سے ڈر کر چھوڑتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو پختہ اور پورا مسلمان بن جائے اس کی ایک ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک بڑھتا جاتا
Flag Counter