﴿ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴾ ’’بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا، یقینا وہی ہے جو بکہ میں ہے، بہت با برکت اور جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔اس میں واضح نشانیاں ہیں ، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو کوئی اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ تمام جہانوں سے بہت بے پروا ہے۔‘‘ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنمی سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ زمین پر جو کچھ ہے اگر تیرا ہو جائے تو کیا تو اس کو ان سزاؤں کے بدلے اپنے فدیے میں دے ڈالے گا؟ وہ کہے گا ہاں ۔ تو باری تعالیٰ کا ارشاد ہو گا کہ میں نے تجھ سے اس کی بنسبت بہت ہی کم چاہا تھا۔ میں نے تجھ سے اس وقت وعدہ لیا تھا جب تو اپنے باپ آدم کی پیٹھ میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا لیکن تو شرک کیے بنا نہ رہا۔[1] قبلہ اوّل کعبہ ہی ہے تفسیر:… یہ یہود کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ تم نے بیت المقدس چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیوں بنایا، حالانکہ پچھلے انبیاء کا قبلہ بیت المقدس ہی تھا۔ اس کا جواب سورۂ بقرہ میں دیا جا چکا ہے لیکن یہودی اس کے بعد بھی اپنے اعتراض پر مُصِر رہے، لہٰذا یہاں پھر اس کا جواب دیا گیا ہے۔ بیت المقدس کے متعلق خود بائبل کی شہادت موجود ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساڑھے چار سو برس بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا۔[2] اور حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کے دور میں وہ قبلہ اہل توحید قرار دیا گیا۔[3] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |